خدا کی پہچان کیسے؟
جب تک آپ ذہنی commitment میں کمزور رہتے ہیں یا ایک مکمل علم یقین خدا پر نہیں رکھتے، اس کے گھر خدا سے مکمل آگہی، شناسائی اور اس کا عرفان ممکن نہیں ہوتا۔ جس چیز کو آپ وسوسہ اور فریب خیال کہتے ہیں، وہ دراصل ہماری کمٹمنٹ کی کمی کے متوازن ہوتا ہے۔ جب ایک دفعہ مکمل طور پر خدا سے commit کر لیں تو باوجود چند باتوں اور غلطیوں کے اعادے پر، پروردگار کا دوسرا قانون ہم پر عائد ہوتا ہے کہ وماتو فیقی الا باللہ علیه توکل والیه منیب (پ ۱۲، س ھود، آیت ۸۸) وہ ہمارے اخلاص کا گواہ ہوتا ہے۔ اسی لیے اس نے شیطان کو کہا کہ تو بہت سارے لوگوں کو بہکائے گا الا عبادل اللہ المخلصین (پ ۲۳، س الصافات، آیت ۶۰) مگر جن کے ساتھ میرا اخلاص ہے تو انہیں کسی قیمت پر بھی بہکا نہیں سکے گا۔
حدیث مسلم یہ ہے کہ بہت سارے نیک پاک لوگوں کو جنت میں لے جائے جارہے ہوں گے کہ پروردگار کہے گا، ان سب مہاتماؤں کو جہنم میں پھینک دو۔ کیونکہ ذرا خلاف واقعہ بات ہوگی، تو ملائکہ بڑی انکساری سے عرض کریں گے کہ پروردگار ان کے نامہ اعمال کی نیکیاں لکھ لکھ کر شرقاً غرباً ہم نے کاغذ ختم کر دیے اور آپ یہ فرما رہے ہیں کہ ان کو جہنم میں پھینک دو۔ فرمایا، میرے اور بندے کا ایک معاملہ ہے، جو میں ہی جانتا ہوں اور وہ اخلاص ہے۔ اخلاص شاید واحد وہ قدر ہے کہ جو انسان کو یقین کے ساتھ ساتھ اس کے عرفان کی طرف آگے بڑھا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ اللہ تعالی نے کہا کہ سات چیزوں پر دوزخ کی آگ حرام قرار دی گئی۔ خاص طور پر اس جوان کی آنکھ،جس سے اللہ کے لئے ایک آنسو نکلا۔ اب یہ چیز ہمیں بتاتی ہے کہ اخلاص سے بڑھ کر بھی جب انسان کو علمی یقین ہوتا ہے، تبھی وہ اصلی طور پر جذباتی بھی ہوتا ہے۔ میرا یہ یقین ہے کہ وہ جذبہ جو علم پر استوار نہیں، وہ جبلی اور جاہلیت کا جذبہ ہے اور وہ جذبہ دیوانگی اور مستی، جو اخلاص اور محبت اور پورے علمی یقین پر قائم ہے، وہی اصلی جذبات کہلاتے ہیں۔
احسان دانش کا شعر ہے۔
یونہی دنیا کے لیے ایک تماشا نہ بنے
جس کو بننا ہو سمجھ سوچ کے دیوانہ بنے