حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب قرآن مجید کی تحریراً تدوین ہوئ تو مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ نسخہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور ان کی وفات تک ان کے پاس رہا۔ جب ان کی وفات ہوئ تو وہ نسخہ ان کے جانشین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلا گیا۔ اور پھر مؤرخین لکھتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کی شہادت واقع ہوئ تو وہ نسخہ ان کی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس چلاگیا۔ امہات المومنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازوجات مطہرات میں سب پڑھی لکھی نہیں تھی۔ بعض کو صرف پڑھنا آتا اور بعض کو پڑھنا لکھنا دونوں آتے تھے۔ جب کہ بعض امی تھیں۔ اس میں کوئ اعتراض کا پہلو نہیں صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی بیٹی ان معدودے چند عورتوں میں تھیں جن کو پڑھنا لکھنا دونوں آتے تھے۔ بہر حال حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے تیار شدہ نسخہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس چلا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جانشین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غالباً ان کی شخصیت اور وجاہت کی بناء پر، یہ مناسب نہیں سمجھا کہ وہ نسخہ ان سے لے لیں۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود حافظ قرآن تھے۔ ان کے پاس ان کا اپنا نسخہ موجود تھا۔ انہیں ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئ کہ وہ اس نسخے کو حاصل کریں۔ لیکن ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس کی بنا پر ضررت پیش آئ کہ وہ نسخہ دوبارہ خلیفہ وقت کے پاس لایا جائے اور اس سے استفادہ کیا جائے۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں غیر معمولی تیز رفتاری سے چہار دانگ عالم میں فتوحات ہوئیں تو بہت سے ایسے لوگ جو دنیا طلب تھے انہیں موقع پرستی کے تحت خیال آیا کہ وہ بھی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کریں۔ لیکن حقیقت میں وہ مسلمان نہیں تھے بلکہ منافق تھے اور ان کی کوشش تھی کہ اسلام کو اندر سے ٹھیس پہنچائ جائے۔ اس سلسلے میں وہ قرآن مجید پر بھی حملے کرتے رہے۔ ممکن ہے اس کی کوئ اہمیت نہ رہی ہو لیکن ایک واقعے سے سنگین صورتحال پیدا ہوگئی۔ وہ یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں آرمینیا سے جنگ کرنے کے لیے ایک فوج بھیجی گئ۔ آرمینیا کا تصور غالباً آپ کے ذہنوں میں نہیں ہوگا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ شمالی ترکی جہاں آج کل ارض روم شہر ہے اور ایرانی سرحد کا علاقہ ہے۔ اس علاقے میں ارمنی رہتے تھے۔ یہ علاقہ آرمینیا کہلاتا تھا۔ قسطلانی جو بخاری کے شارح ہیں وہ لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک فوج جب ارزن روم کے قریب موجود تھی (یہ ارزن روم اب ارض روم بن گیا ہے) تو اس وقت فوج میں ایک حادثہ پیش آیا۔ وہ یہ تھا کہ امام اور مقتدیوں میں بعض آیتوں کی قرات کے بارے میں جھگڑا ہوگیا۔ امام نے ایک طرح سے عبارت پڑھی اور حاضرین نے کہا یوں نہیں یوں ہے۔ ایک نے کہا ہمیں فلاں استاد فلاں صحابی نے پڑھایا ہے۔ دونوں اپنی اپنی باتوں پر اڑے رہے۔ قریب تھا کہ تلواریں چلیں اور خوں ریزی ہو کہ فوج کے کمانڈر انچیف نے حسن تدبیر سے اس فتنے کی آگ کو ٹھنڈا کیا۔ جب وہ فوج مدینہ منورہ واپس آئ تو کمانڈر انچیف حذیمہ بن یمان اپنے گھر میں بچوں کی خیریت پوچھنے سے پہلے سیدھے خلیفہ کے پاس پہنچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یا امیر المومنین امت محمد کی خبر لیجئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ کیا واقعہ پیش آیا؟ تو انہوں نے یہ قصہ سنایا۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوراً فیصلہ کیا۔ ان میں ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ کوئ کام ان کے ذہن میں آتا اور فیصلہ کرلیتے تو فوراً اس کی تعمیل بھی کراتے۔ جیسے ہی یہ صورت حال سامنے لائ گئ تو انہوں نے فرمایا کہ اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک آدمی بھیجا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے تیار شدہ جو نسخہ آپ کے پاس ہے وہ مجھے مستعار دیجئے۔ استفادہ کرنے کے بعد میں آپ کو واپس کردوں گا۔ وہ نسخہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے دوبارہ پرانے کاتب وحی زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے سپرد کیا کہ اس کی نقلیں تیار کرو، اور ان نقلوں کا مقابلہ کرکے اگر ان میں کتابت کی غلطیاں رہ گئی ہوں تو ان کی اصلاح کرو۔ قرآن مجید چونکہ عربی زبان کی پہلی کتاب ہے اس لیے ابتدائ زمانے میں عربی خط میں کچھ خامیاں ہوسکتی ہیں۔ لہٰذا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی ہدایت کہ کہ اگر تلفظ کی ضرورت کے لحاظ سے املا میں کچھ ترمیم کی ضرورت محسوس ہوتو ضرور کرو۔ یہ نکتہ بھی سمجھایا کہ عربی زبان مختلف علاقوں میں کچھ فرق بھی رکھتی ہے۔ قبیلہ نجد کے لوگ ایک لفظ کو ایک طریقے ادا کرتے ہیں مدینے کے لوگ دوسرے طریقے سے، فلاں جگہ کے لوگ تیسرے طریقے سے۔ اس لیے اگر کسی لفظ کے تلفظ میں اختلاف پایا جاتا ہے تو قرآن مجید کو مکہ معظمہ کے تلفظ کے مطابق لکھو۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے چند مددگاروں کے تعاون سے دوبارہ اس پرانے نسخے کو سامنے رکھ کر نقل کرنا شروع کرتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر کسی مسئلے میں اختلاف ہوتو مسئلہ میرے پاس بھیجو، میں خود اس کا فیصلہ کروں گا۔ بدقسمتی سے یہ واقعہ جو ارض روم میں پیش آیا تھا کہ فلاں آیت کے متعلق یا فلاں لفظ کے متعلق فوج میں جھگڑا ہوا، اس کی کوئ تفصیل نہیں ملتی، شاید اس جھگڑے کی بنیاد قبائلی بولیوں اور لہجوں کا اختلاف ہو۔ اس قسم کی ایک مثال مجھے یاد آتی ہے۔ قرآن مجید میں “تابوت” کا لفظ آیا ہے، جس کے معنی صندوق کے ہوتے ہیں۔ اس کا تلفظ مدینہ منورہ کی بولی (Dialect) میں “تابوہ” ہوتا تھا۔ آخر میں “ۃ” کے ساتھ جب کہ مکے کے لوگ “تابوت” کے ساتھ پڑھتے تھے۔ اس پر کمیشن کے ارکان متفق نہیں ہوسکے۔ یہ اختلافی مسئلہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے پیش ہوا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تابوت بڑی ت کے ساتھ لکھو، یہ کوئ بڑی اہمیت کی بات نہیں، لیکن میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں قرآن مجید کی تدوین ہوئ اس کی حقیقت کیا ہے؟ حقیقت صرف اس قدر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں قرآن مجید کی نقلیں تیار کی گئیں۔ املا میں کہیں کہیں ترمیم کی گئ۔ لفظ کی آواز کو نہیں بدلا گیا۔ لیکن اس آواز کی املا میں کچھ فرق کیا گیا۔ اس کے بعد اس کے چار نسخے یا ایک روایت کے مطابق سات نسخے تیار کیے گئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں علمی دیانت داری کا جو معیار تھا اس کے تحت انہوں نے حکم دیا کہ ان ساتوں نسخوں کو ایک ایک کرکے، مسجد نبوی میں ایک شخص باآواز بلند شروع سے لے کر آخرت تک پڑھے تاکہ کسی شخص کو بھی یہ شبہ نہ رہے کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن میں کہیں کوئ تبدیلی کی ہے۔ جب یہ سارے نسخے اس طرح پڑھے گئے اور سب کو اطمینان ہوگیا کہ یہ نسخے صحیح ہیں تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی وسیع سلطنت کے مختلف صوبوں کے صدر مقاموں پر وہ نسخے بھیجے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کی اسلامی سلطنت کی وسعت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ 27 ہجری یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے صرف پندرہ سال بعد، اسلامی فوج ایک طرف اسپین میں اور دوسری طرف دریائے جیجوں کو عبور کرکے ماوراء النہر (چین) میں داخل ہوگئ تھی۔ یورپ، ایشیا اور افریقہ، اسلامی سلطنت ان سب براعظموں میں پھیل گئ تھی اس کے بڑے بڑے صوبوں میں قرآن مجید کے یہ نسخے بھیجے گئے اور یہ حکم دیا گیا کہ آئندہ صرف انہیں سرکاری مستند نسخوں سے مزید نقلیں لی جایا کریں۔ اس بات کی تاکید بھی کی گئ کہ اگر کسی کے پاس کوئ نسخہ اس کے خلاف پایا جائے تو اسے تلف کردیا جائے۔ اس حکم کی تعمیل کس حد تک ہوئ، اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلتا۔ عملاً یہ ناممکن بھی تھا کہ تین براعظموں کے ہر ہر مسلمان کے گھر میں پولیس جائے اور اور قرآن مجید کا شروع سے لے کر آخر تک سرکاری نسخے سے مقابلہ کرے۔ اور پھر اس میں کوئ اختلاف نظر آئے تو اسے تلف کردے۔ تاریخی طور پر ایسے کسی واقعے کا ذکر بھی نہیں ملتا لیکن بہر حال حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے سے آج تک قرآن مجید کے جو نسخے ہمارے پاس نسلاً بعد نسلاً چلے آرہے ہیں، وہ پہلی صدی ہجری سے لے کر آج تک وہی ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو چار یا سات قلمی نسخے مختلف مقامات پر بھیجے ان میں سے کچھ اب تک محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔ ثبوت کوئ نہیں، لیکن یہ روایت ہے کہ یہ انہی نسخوں میں سے ہیں۔ ایک نسخہ آج کل روس کے شہر تاشقند میں ہے وہاں کیسے پہنچا اس کا قصہ یہ ہے کہ یہ نسخہ پہلے دمشق میں پایا جاتا تھا جو بنی امیہ کا صدر مقام تھا۔ جب دمشق کو تیمور لنگ نے فتح کیا تو وہاں کے مال غنیمت میں سب سے زیادہ قیمتی چیز کے طور پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قرآن مجید پایا۔ اسے لیا اور اپنے ساتھ پایہ تخت سمر قند لایا اور وہاں اسے محفوظ رکھا۔ یہ نسخہ سمر قند میں رہا تاآنکہ گزشتہ صدی میں روسیوں نے سمر قند کو فتح کرلیا۔ فتح کرنے کے بعد اس نسخے کو جس کی بڑی شہرت تھی روسی کمانڈر انچیف نے وہاں سے لے کر سینٹ پیٹرس برگ منتقل کردیا جو آج کل لینن گراڈ کہلاتا ہے۔ روسی مؤرخ بیان کرتے ہیں کہ اس نسخے کو سمر قند کے حاکم نے روسی کمانڈر انچیف کے ہاتھ 25 یا 50 روپے میں فروخت کردیا تھا، ہم نے اسے چرایا نہیں بلکہ خرید کر لائے ہیں۔ بہر حال پہلی جنگ عظیم کے اختتام تک وہ نسخہ لینن گراڈ میں رہا اس کے بعد جیسا کہ آپ کو معلوم ہے زار کی حکومت ختم ہوگئ اور کمیونسٹوں نے حکومت پر قبضہ کرلیا۔ اس وقت بہت سے روسی باشندے جو کمیونسٹ حکموت کے ماتحت رہنا نہیں چاہتے تھے روس چھوڑ کر دنیا میں تتر بتر ہوگئے۔ ان میں سے ایک صاحب پیرس بھی آئے جو جنرل علی اکبر توپچی باشی کے نام سے مشہور تھے۔ میں خود ان سے مل چکا ہوں، انہوں نے اس کا قصہ مجھے سنایا۔ کہنے لگے کہ جب زار کو قتل کیا گیا اس وقت میں فوج میں ایک بڑے افسر کی حیثیت سے سینٹ پیٹرس برگ ہی میں موجود تھا۔ میں نے ایک کمانڈر (فوجی دستہ) بھیجا کہ جاکر شاہی محل پر قبضہ کرو اور شاہی کتب خانے میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو قرآن مجید کا نسخہ ہے اسے تلاش کرکے لے آؤ۔ کمانڈر گیا اور وہ قرآن مجید لے آیا۔ انہوں نے ایک فوجی جنرل کی حیثیت سے ریلوے اسٹیشن جاکر وہاں کے اسٹیشن ماسٹر سے کہا کہ مجھے ایک ریل کا انجن درکار ہے۔ اس انجن میں اس قرآن کو رکھا اور اپنے آدمیوں کی نگرانی میں انجن ڈرائیور کو حکم دیا کہ جس قدر تیزی سے جاسکتے ہو اس انجن کو ترکستان لے جاؤ۔ اس کی اطلاع کمیونسٹ فوجی کمانڈروں کو چند گھنٹے بعد ملی۔ چنانچہ اس کے تعاقب میں دوسرا انجن اور کچھ افسر روانہ کیے گئے لیکن وہ انجن ان کے ہاتھ سے باہر چکل چکا تھا اور اس طرح یہ نسخہ تاشقند پہنچ گیا۔ جب کمیونسٹ دور میں تاشقند پر روسیوں نے دوبارہ قبضہ کرلیا تو اس نسخے کو وہاں سے لینن گراڈ منتقل کرنے کی کوئ کوشش نہیں کی گئ۔ چنانچہ وہ نسخہ اب تک تاشقند میں محفوظ ہے۔ زار کے زمانے میں اس قرآن مجید کا فوٹو لے کر ایک گز لمبی تقطیع پر کل پچاس نسخے چاپے گئے تھے۔ ان میں سے چند نسخے میرے علم میں ہیں اور وہ دنیا میں محفوظ ہیں۔ ایک امریکہ میں ہے۔ ایک انگلستان میں ہے۔ ایک نسخہ میں نے کابل میں دیکھا تھا۔ ایک مصر کے کتب خانے میں پایا جاتا ہے۔ میرے پاس اس کا مائیکرو فلم بھی ہے۔ یہ ایک نسخہ ہے۔ دوسرا نسخہ استنبول میں توپ قاپی سرائے میوزیم میں موجود ہے جس کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ اس میں سورۂ بقرہ کی آیت (فسیکفیکھم اللہ) پر سرخ دھبے پائے جاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خون ہے۔ کیونکہ وہ جس وقت تلاوت کررہے تھے اس وقت انہیں شہید کردیا گیا تھا۔ تیسرا نسخہ انڈیا آفس لائبریری لندن میں ہے۔ اس کا فوٹو میرے پاس ہے۔ اس پر سرکاری مہریں ہیں اور لکھا ہے کہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نسخہ قرآن ہے۔ ان نسخوں کے خط اور تقطیع میں کوئ فرق نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخے ایک دوسرے کے ہم عصر ہیں۔ یہ نسخے جھلی پر لکھے گئے ہیں، کاغذ پر نہیں ہیں۔ ممکن ہے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسخے ہوں یا اس زمانے میں یا اس کے کچھ ہی عرصہ بعد کے لکھوائے ہوئے نسخے ہوں۔ بہر حال یہ بات ہمارے لیے قابل فخر اور باعث اطمینان ہے کہ ان نسخوں میں اور موجودہ مستعملہ نسخوں میں، باہم کہیں بھی، کوئ فرق نہیں پایا جاتا۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جامع القرآن کہا جاتا ہے اس کے معنی یہ نہیں کہ انہوں نے قرآن کو جمع کیا۔ اس کی تاویل ہمارے مورخوں نے یہ کی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو ایک ہی قرآن پر جمع کیا۔ جو اختلاف بولیوں میں پایا جاتا تھا اس سے ان کو بچانے کے لیے مکہ معظمہ کے تلفظ والے قرآن کو انہوں نے نافذ کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر یہ اجازت دی تھی کہ مختلف قبائل کے لوگ مختلف الفاظ کو مختلف انداز میں پڑھ سکتے ہیں تو اب اس کی کوئ ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ مکہ معظمہ کی عربی اب ساری دنیائے اسلام میں نافذ اور رائج ہوچکی ہے۔ اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کو ایک قرآن مجید پر جمع کیا۔ خدا ان کی روح پر اپنی برکات نازل فرمائے۔