Blog

تاریخ قرآن حصہ دوئم

ڈاکٹر محمد حمید اللہ

اب ہم یہ دیکھیں گے کہ قرآن کس طرح محفوظ حالت میں ہم تک پہنچا ہے۔ اولاً میں اس کی زبان کےبارے میں کچھ عرض کروں گا۔ یہ عربی زبان میں ہے۔ اس آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب کے لیے عربی زبان کا انتخاب کیوں ہوا؟ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زبانیں رفتہ رفتہ بدل جاتی ہیں۔ خود اردو زبان کولیجئے۔ اب سے پانچ سو سال پہلے کی کتاب مشکل سے ہمیں سمجھ میں آتی ہے۔ دنیا کی ساری زبانوں کا یہی حال ہے انگریزی میں پانچ سو سال پہلے کی مؤلف “چاسیر” (Chaucer) کی کتاب کو آج کل لندن کا کوئ شخص، یونیورسٹی کے فاضل پروفیسروں کے سوا، سمجھ نہیں سکتا۔ یہی حال دوسری قدیم و جدید زبانوں کا ہے۔ یعنی وہ بدل جاتی ہیں اور رفتہ رفتہ ناقابل فہم ہوجاتی ہیں۔ اگر خدا کا آخری پیغام بھی کسی ایسی ہی تبدیل ہونے والی زبان میں آتا تو خدا کی رحمت کا اقتضاء یہ ہوتا کہ ہم بیسویں صدی کے لوگوں کو پھر ایک نئ کتاب دے تاکہ ہم اسے سمجھ سکیں کیونکہ گزشتہ صدیوں کی کتاب اب تک ناقابل فہم ہوچکی ہوتی۔ دنیا کی زبانوں میں سے اگر کسی زبان کو یہ استثناء ہے کہ وہ نہیں بدلتی تو وہ عربی زبان ہے۔ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم عصر عربی یعنی قرآن مجید اور حدیث شریف میں جو زبان استعمال ہوئ ہے اور جو عربی آج ریڈیو پر آپ سنتے ہیں یا جو آج عربی اخباروں میں پڑھتے ہیں، ان دونوں میں بہ لحاظ مفہوم الفاظ، گرامر (صرف و نحو)، ہجے اور تلفظ، کوئ فرق نہیں ہے۔ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں اور میں ایک عرب کی حیثیت سے اپنی موجودہ عربی میں آپ سے گفتگو کروں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ہر لفظ سمجھیں گے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے جواب مرحمت فرمائیں تو آپ کا ہر لفظ میں سمجھ سکوں گا۔ کیونکہ ان دونوں زبانوں میں کوئ فرق نہیں ہے۔ میں اس سے یہ استنباط کرتا ہوں کہ آخری نبی پر بھیجی ہوئ آخری کتاب ایسی زبان میں ہونی چاہیے جو غیر تبدیل پذیر ہو لہٰذا عربی کا انتخاب کیا گیا، عرض کرنا یہ ہے کہ اس عربی زبان میں دیگر خصوصیات مثلاً فصاحت، بلاغت، ترنم وغیرہ کے علاوہ ایک خصوصیت ایسی ہے جس کا ہم سب مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ وہ یہ کہ عربی زبان غیر تبدیل پذیر ہے اور اس کے لیے ہمیں عربوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے مختلف علاقوں کی بولیوں کو اپنی زبان نہیں بنایا۔ بلکہ اپنی علمی اور تحریری زبان وہی رکھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے چلی آرہی تھی۔

جہاں تک قرآن کا تعلق ہے آپ سب واقف ہیں کہ وہ بیک وقت نازل نہیں ہوا۔ جیساکہ توریت کے متعلق یہودیوں کا بیان کہ اسے خدا نے تختیوں پر لکھ کر ایک ہی مرتبہ دے دیا تھا۔ اس کے برخلاف قرآن مجید تئیس سال تک جستہ جستہ، (نجماً نجماً) نازل ہوتا رہا اور یہ ان مختلف زمانوں میں نازل شدہ اجزاء کا مجموعہ ہے جو قرآن مجید کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔ اس کا آغاز دسمبر سنہ 609ء میں ہوا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں معتکف تھے۔ وہاں حضر جبرئیل علیہ السلام آتے ہیں اور آپ تک خدا کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ وہ پیغام بہت ہی اثر انگیز ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک امی ہیں۔ انہیں لکھنا پڑھنا نہیں آتا۔ اس امی شخص کو جو پہلا حکم دیا گیا وہ ہے “اقراء” یعنی پڑھ اور پھر قلم کی تعریف کی گئی ہے۔ پڑھنے کا حکم دے کر پھر قلم کی تعریف کیوں کی جاتی ہے؟ اس لیے کہ قلم ہی کے ذریعے سے خدا انسا کو وہ چیز بتاتا ہے جو وہ نہیں جانتا دوسرے الفاظ میں قلم ہی وہ چیز ہے جو انسانی تمدن اور انسانی تہذیب کی حفاظت گاہ (Depository) ہے۔ اس کا وجود اس لیے ہے کہ پرانی چیزوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔ آنے والے اس میں نئی چیزوں کا اضافہ کرتے ہیں۔ انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقاء کا راز یہی ہے اور اسی وجہ سے انسان کو دیگر حیوانات پر تفوق حاصل ہے ورنہ آپ غور کریں گے کہ کوا آج سے بیس لاکھ سال پہلے جس طرح گھونسلا بناتا تھا آج بھی اسی طرح بناتا ہے۔ اس نے کوئ ترقی نہیں کی۔ لیکن انسان و جانور ہے جو چاند تک پہنچ چکا ہے۔ اس نے اتنی ترقی کی کہ آج وہ ساری کائنات پر حکومت کررہا ہے۔ یہ ساری ترقیاں انسان نے اس لیے کی ہیں کہ اس کو اپنے سے پہلے کے لوگوں کے تجربات کا جو علم حاصل ہوا اس کو محفوظ رکھا اور اس میں اس نے اپنے ذاتی تجربوں سے روز افزاوں اضافہ کیاا اور اس سے استفادہ کرتا رہا۔ اور یہ سب قلم کی بدولت ممکن ہوا۔ آیت (علم بالقلم، علم الانسان مالم یعلم) میں اسی حقیقت کی طرف قرآن مجید نے بہت ہی بلیغ انداز میں اشارہ کیا ہے۔ جب “سورۃ اقراء” (یعنی سورۃ العلق) کی پہلی پانچ آیاتا نازل ہوئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار کو چھوڑ کر گھر واپس آئے اور اپنی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بتایا کہ مجھے آج یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ مجھے خوف ہے کہ وہ شاید کسی دن مجھے نقصان نہ پہنچائے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تسلی دی اور کہا کہ خدا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ضائع نہیں کرے گا۔ ورقہ بن نوفل میرا چچا زاد بھائ ہے جو ان معاملات (یعنی فرشتے، وحی وغیرہ) سے واقف ہے۔ کل صبح جاکر ہم اس سے گفتگو کریں گے، وہ آپ کو بتائے گا۔ میں ان چیزوں سے واقف نہیں ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ شیطان کبھی آپ کو دھوکا نہیں دے سکے گا۔ ایک روایت کے مطابق صبح کو وہ آپ کو اپنے ساتھ ورقہ بن نوفل کے پاس لے جاتی ہیں۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے ان کے عزیز دوست ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو حضرت خدینہ رضی اللہ عنہا نے ان کو یہ قصہ سنایا اور کہا کہ انہیں اپنے ساتھ لے جاکر ورقہ سے ملاؤ۔ ورقہ بن نوفل بہت بوڑھے تھے۔ ان کی بصارت زائل ہوچکی تھی، مذہباً نصرانی تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس پہنچے اور یہ قصہ سنایا تو ورقہ نے بے ساختہ یہ الفاظ کہے: “اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جو چیزیں تم نے ابھی بیان کی ہیں، اگر وہ صحیح ہیں تو یہ ناموس موسیٰ علیہ السلام سے مشابہ ہیں”۔ “ناموس” کا لفظ اردو میں عام طور پر عزت کے لیے مستعمل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں یہ مفہوم نہیں ہوسکتا۔ بعض مفسرین ناموس کے معنی “قابل اعتماد” لکھتے ہیں، وہ بھی یہاں موزوں نہیں ہے۔ بعض لکھتے ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ناموس کا نام دیا جاتا ہے۔ اسلامی ادبیات میں وہ “روح الامین” ہیں مگر یہ معنی بھی یہاں کام نہیں دیتے۔ میرے ذہن میں یہ آتا ہے کہ “ناموس” اصل میں ایک اجنبی لفظ ہے، جو معرب ہوکر عربی زبان میں استعمال ہوا۔ یہ یونانی زبان کا لفظ “ناموس” (Nomos) ہے۔ یونانی زبان میں لفظ توریت کو نوموس یعنی قانون کہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ورقہ بن نوفل کا بیان ہے کہ یہ چیز حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توریت سے مشابہ ہے۔ اور یہی معنی زیادہ قرین قیاس نظر آتے ہیں۔

قرآن مجید کی تبلیغ و اشاعت کے متعلق قدیم ترین ذکر ابن اسحٰق کی کتاب المغازی میں ملتا ہے۔ یہ کتاب ضائع ہوگئی تھی لیکن اس کے بعض ٹکڑے حال ہی میں ملے ہیں اور حکومت مراکش نے ان کو شائع بھی کیا ہے۔ اس میں ڈیڑھ سطر کی ایک بہت دلچسپ روایت ہے، جسے ابن ہشام نے اپنی سیرۃ النبی میں معلوم نہیں کس بناء پر یا سہواً چھوڑ دیاہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: “جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کی کوئ عبارت نازل ہوتی تو آپ سب سے پہلے اس مردوں کی جماعت میں تلاوت فرماتے پھر اس کے بعد اسی عبارت کو عورتوں کی خصوصی محفل میں بھی سناتے”۔ اسلامی تاریخ میں یہ ایک ہم واقعہ ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عورتوں کی تعلیم سے بھی اتنی ہی دلچسپی تھی جتنی مردوں کی تعلیم سے۔ یہ قدیم ترین اشارہ ہے جو قرآن مجید کی تبلیغ کے متعلق ملتا ہے۔ اس کے بعد کیا پیش آیا یہ کہنا مشکل ہے لیکن بالکل ابتدائ زمانے ہی سے ہمیں ایک نئ چیز کا پتہ چلتا ہے وہ یہ کہ قرآن مجید کو لکھوا یا جائے اور غالباً حفظ کرانا بھی اسی ابتدائ زمانے سے تعلق رکھتا ہے، جب حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پہلی وحی کے موقع پر قرآن مجید کی سورۂ اقراء کی پہلی پانچ آیتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائیں تو ایک حدیث کے مطابق حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دو کام اور کیے۔ ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو استنجاء اور وضو کرنا سکھایا کہ نماز کے لیے کس طرح اپنے آپ کو جسمانی طور پر پاک کریں۔ دوسرے یہ کہ نماز پڑھنے کا طریقہ بھی بتایا۔ خود جبرئیل علیہ السلام امام بنے اور پیغمبر مقتدی کی حیثیت سے پیچھے کھڑے دیکھتے رہے کہ پہلے کھڑے ہوں، پھر رکوع میں جائیں، پھر سجدہ کریں وغیرہ اور ساتھ ساتھ خود بھی وہی کرتے رہے۔ ظاہر ہے کہ نماز میں قرآن مجید کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں، لہٰذا ابتدائ زمانے ہی سے جب لوگ مسلمان ہونے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا ہوگا کہ قرآن مجید کو حفظ بھی کرو اور روزانہ جتنی نمازیں پڑھنی ہوں ان نمازوں میں ان کا اعادہ بھی کرتے رہو۔ گویا اس وقت ہمیں دوباتیں نظر آتی ہیں۔ قرآن مجید حفظ کرنا اور اسی کو لکھنا۔ آدمی کو کسی نئ چیز کو ازبر کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ اس کے سامنے کوئ تحریری عبارت ہوتو اس کو بار بار پڑھتا ہے بالآخر وہ حفظ ہوجاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں قرآن کو حفظ کرنا اور لکھنا دونوں ایک ہی زمانے کی چیزیں ہیں۔ ہمارے مورخ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب کوئ آیت نازل ہوتی تو وہ اپنے صحابہ میں سے کسی ایسے شخص کو جسے لکھنا پڑھنا آتا ہوتا، یاد فرماتے اور اس کو املا کراتے تھے۔ اہم بات یہ بیان ہوئ ہے کہ لکھنے کے بعد اس سے کہتے کہ “جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ کر سناؤ” تاکہ اگر کاتب نے کوئ غلطی کی ہوتو اس کی اصلاح کرسکیں۔ یہ قرآن مجید کی تدوین کا آغاز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ لکھوانے کے بعد اپنے صحابہ کو حکم دیتے کہ اسے ازبر کرلو اور روزانہ دو وقت کی نمازوں میں پڑھو۔ اس وقت دونمازیں تھی معراج کے بعد پانچ نمازیں ہوئیں تو دو کے بجائے پانچ مرتبہ اس کو لوگ نماز میں دہرانے لگے۔ اس کا ایک عملی فائدہ یہ ہے کہ اگر آدمی کا حافظہ اچھا نہ ہو اور سال بھر میں مثلاً صرف عیدالاضحیٰ اور عید الفطر کے دن قرآن مجید کو حافظے کی مدد سے پڑھے تو ممکن ہے کہ اس کو بھول جائے لیکن اگر کوئ آدمی روزانہ پانچ مرتبہ دہراتا ہے تو ظاہر ہے قرآن مجید اس کے حافظے میں رہے گا اور وہ اسے نہیں بھولے گا۔

الغرض قرآن مجید کو لکھنے اور اسے حفظ کرنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔ اس سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام کی تاریخ میں ایسی کوئ مثال ہمیں نظر نہیں آتی ہے۔ ا س سے بڑھ کر ایک اور کام بھی ہوا وہ یہ کہ فرض کیجئے میرے پاس ایک تحریری نسخہ موجود جس میں کسی نہ کسی وجہ سے کتابت کی کچھ غلطیاں موجود ہیں اس غلط نسخے کو میں حفظ کرلیتا ہوں۔ اس طرح میرا حفظ بھی غلط ہوگا۔ اس کی اصلاح کس طرح کی جائے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف بھی توجہ فرمائ اور حکم فرمایا کہ ہر مسلمان کو کسی مستند استاد ہی سے قرآن مجید پڑھنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے بڑھ کر قرآن مجید سے کون واقف ہوسکتا ہے؟ اس لیے ہر مسلمان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سیکھنا اور پڑھنا چاہیے۔ اگر اس کے پاس تحریری نسخہ موجود ہے تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تلاوت کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر فرمائیں کہ ہاں یہ نسخہ ٹھیک ہے تب اسے حفظ کیا جائے۔ جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی تو ظاہر ہے کہ ایک آدمی سارے لوگوں کو تعلیم و تربیت نہیں دے سکتا تھا۔ اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسے صحابہ کو جن کی قرآن دانی کے متعلق آپ کو پورا اعتماد تھا یہ حکم دیا کہ اب تم بھی پڑھایا کرو۔ یہ وہ مستند استاد تھے جن کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سند دیتے تھے کہ تم پڑھانے کے قابل ہو اور اس کا سلسلہ آج بھی دنیا میں قائم ہے۔ اگر کوئ شخص کسی استاد سے قرآن مجید پڑھتا ہے تو قرات کی تکمیل کے بعد استاد کی طرف سے اسے جو سند ملتی ہے اس میں وہ استاد لکھتا ہے کہ “میں نے اپنے شاگرد فلاں کو قرآن مجید کے الفاظ، قرآن مجید کی قرات کے اصولوں کو ملحوظ رکھ کر یہ تعلیم دی ہے۔ یہ بالکل وہی ہے جو میرے استاد نے مجھ تک پہنچائ تھی اور اس نے مجھے اطمینان دلایا تھا کہ اس کو اس کے اپنے استاد نے اسی طرح پڑھایا تھا۔ اس کا سلسہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی محفوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔

اسلامی روایات (Tradition) کے سوا دنیا کی کسی قوم نے اپنی مذہبی کتاب کو محفوظ کرنے کے لیے یہ اصول کبھی اختیار نہیں کیے تھے۔ یہ چیزیں قرآن مجید کی تدوین کے سلسلے میں عہد نبوی میں ہی پیش آئیں مگر اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا۔ ایک اور چیز کی بھی شروع ہی سے ضرورت تھی۔ قبل اس کے کہ میں اس کا ذکر کرو، قرآن مجید کے تحریری نسخوں کے متعلق بھی کچھ آپ کو بتاتا چلوں کہ ان کا کب سے پتہ چلتا ہے۔ غالباً نبوت کے پانچویں سال کا واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کیا۔ ان کے واقعہ سے آپ واقف ہوں گے۔ وہ اس زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت جانی دشمن تھے۔ ایک دن یہ طے کرکے گھر سے نکلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذ باللہ) قتل کرڈالوں۔ راستے میں ان کا ایک رشتہ دار ملا جس نے اسلام تو قول کرلیا تھا لیکن اسے چھپا کر رکھا تھا۔ اس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ ہتھیار سے لیس ہوکر کہاں جارہے ہو؟ چونکہ وہ رشتہ دار تھا اس لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے بتادیا کہ میں محمد کو (نعوذباللہ) قتل کرنے جارہا ہوں کہ اس نے ہنگامہ مچارکھا ہے۔ اس رشتے دار نے کہا اے عمر، اپنے قبیلے کو بنو ہاشم کے قبیلے سے جنگ میں الجھانے سے پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ تہماری بہن فاطمہ بھی مسلمان ہوچکی ہے اس کا شوہر بھی مسلمان ہوچکا ہے۔ پہلے اپنے گھر کی خبر لو بعد میں دنیا کی اصلاح کرنا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حیران ہوئے اور سیدھے بہن کے گھر پہنچے۔ دروازے کے پاس انہوں نے اندر سے کچھ آواز سنی جیسے کوئ شخص گارہا ہے یا خوش الحانی سے کچھ پڑھ رہا ہے۔ انہوں نے بہت زور سے دروازہ کھٹکھٹایا، گھر سے ایک شخص نکلا اور یہ اندر پہنچے۔ وہاں بہن اور بہنوئ سے جو سخت کلامی ہوئ اس سے آپ لوگ واقف ہیں۔ میں مختصراً ذکر کررہا ہوں کہ بالآخر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بہن کواس بات پر آمادہ کرلیا کہ جو چیزیں پڑھ رہی تھیں وہ ان کو دکھائیں۔ انہوں نے غسل کرانے کے بعد آپ کو وہ چیز پیش کی۔ یہ قرآن مجید کی چند سورتیں تھیں۔ ان کو پڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ متاثر ہوئے اور مسلمان ہوگئے۔ اس واقعے سے میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن مجید کی کم از کم چند سورتوں کے تحریری صورت میں پائے جانے کا ذکر سنہ ٥ نبوی ہی سے یعنی قبل ہجرت سے ملتا ہے۔ اس کے بعد جس تحریری نسخے کا پتہ چلتا ہے اس کا ذکر بھی دلچسپ ہے۔ یہ غالباً بیعت عقبہ ثانیہ کا واقعہ ہے۔ مدینے سے کچھ لوگ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے ان میں سے بنی زریق کے ایک شخص کے بارے میں مؤرخین نے صراحت سے لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی اس وقت تک نازل شدہ سورتوں کا مکمل مجموعہ ان کے سپرد کیا۔ یہ صحابی مدینہ منورہ پہنچ کر اپنے قبیلے میں اپنے محلے کی مسجد میں اسے روزانہ باآواز بلند پڑھا کرتے تھے۔ گویا قرآن مجید مدون ہونے یا تحریری صورت میں پائے جانے کا یہ دوسرا واقعہ ہے جس کا مورخوں نے صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

میں یہ بیان کررہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قرآن کو کسی مستند استاد سے پڑھنا پہلی خصوصیت تھی۔ دوسری خصوصیت تحریری صورت میں محفوظ رکھنا، تاکہ اگر کہیں بھول جائے تو تحریر دیکھ کر اپنے حافظے کو تازہ کرلیا جائے اور تیسری خصوصیت اسے حفظ کرنا تھا۔ ان تین باتوں کا حکم دیا گیا تھا۔ لیکن اس میں ایک پیچیدگی اس طرح پیدا ہوگئی تھی کہ قرآن مجید کامل حالت میں بہ یک وقت نازل نہیں ہوا تھا۔ بلکہ جستہ جستہ 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو میکانیکی طور پر مدون نہیں کیا کہ پہلی آیت شروع میں ہو اور بعد میں نازل شدہ دوسرے نمبر پر رہے بلکہ اس کی تدوین الہام اور حکمت نبوی کے تحت ایک اور طرح سے کی گئی۔ قرآن مجید کی اولین نازل شدہ آیتیں جیسا کہ میں نے ابھی آپ سے عرض کیا سورۂ اقراء کی ابتدائی پانچ آیتیں ہیں۔ یہ آیتیں سورہ نمبر 96 میں ہیں۔ جب کہ قرآن مجید کی کل سورتیں 114 ہیں۔ ان میں 96 نمبر پر ابتدائ سورۃ ہے۔ قرآن مجید میں اب جو بالکل ابتدای سورتیں ملتی ہیں، مثلاً سورہ بقرہ وغیرہ وہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ دوسرے الفاظ میں قرآن مجید ترتیب کے لحاظ سے مدون نہیں ہوا بلکہ ایک دوسری صورت میں مرتب ہوا۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو دشواریاں پیش آسکتی تھیں۔ یعنی آج ایک سورۃ نازل ہوئ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت دیتے ہیں کہ اس کو فلاں مقام پر لکھو۔ پھر کل ایک آیت نازل ہوئ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ اس کو فلاں آیت سے قبل لکھو یا فلاں آیت کے بعد لکھو یا فلاں سورۃ میں لکھو۔ اس لیے ضرورت تھی کہ وقتاً فوقتاً نظر ثانی ہوتی رہے۔ لوگوں کے ذاتی نسخوں کی اصلاح اور نظر ثانی کا ذکر بھی ہجرت کے بعد سے ملتا ہے۔ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کے مہینے میں دن کے وقت قرآن مجید کو جتنا اس سال تک نازل ہوا تھا باآواز بلند دہرایا کرتے تھے اور ایسے صحابہ جن کو لکھنا پڑھنا آتا تھا وہ اپنا ذاتی نسخہ ساتھ لاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت پر اس کا مقابلہ کرتے جاتے تاکہ اگر ان سے کسی لفظ کے لکھنے میں یا سورتوں کو صحیح مقام پر درج کرنے میں کوئ غلطی ہوئ ہےتو وہ اس کی اصلاح کرلیں۔ یہ چیز “عرضہ” یا پیشکش کہلاتی تھی۔ مؤرخین مثلاً امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ نے صراحت کی ہے کہ آخری سال وفات سے چند ماہ پہلے جب رمضان کا مہینہ آیا تو آپ نے پورے کا پورا قرآن مجید لوگوں کو دومرتبہ سنایا اور یہ بھی کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ میری وفات قریب آگئی ہے کیونکہ قرآن حکیم کے متعلق جبرئیل علیہ السلام نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں دو مرتبہ پڑھ کر سناؤں تاکہ اگر کسی سے غلطیاں ہوئ ہوں تو باقی نہ رہیں۔ یہ تھی تدبیر جو آخری نبی نے آخری پیغام ربانی کی حفاظت کے لیے اختیار فرمائ۔ اس طرح قرآن مجید کے ہم تک قابل اعتماد حالت میں پہنچنے کا اہتمام ہوا۔

 

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button
× How can I help you?