Blog

تاریخ قرآن حصہ اول

ڈاکٹر محمد حمید اللہ

مسند احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ میں ایک حدیث ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ “اللہ نے حضرت آدم سے لے کر مجھ تک ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے۔ جن میں سے تین سو پندرہ صاحب کتاب تھے”۔ تین سو پندرہ صاحب کتاب نبیوں کے نام نہ تو قرآن مجید میں ہیں اور نہ احادیث میں ان کا ذکر ہے، لہٰذا ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ ان کی تفصیل معلوم کرسکیں۔ صرف چند اشارے ملتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام پر دس صحیفے نازل ہوئے تھے۔ لیکن یہ ہماری بدنصیبی ہے ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کس زبان میں تھے۔ چہ جائیکہ ان کے مندرجات کا علم ہو۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹھے حضرت شیث علیہ السلام بھی پیغمبر تھے ان کے متعلق بعض روایات میں ذکر ملتا ہے کہ ان پر بھی چند کتابیں نازل ہوئی تھیں۔ لیکن ان کا بھی دنیا میں اب کوئ وجود نہیں۔ قدیم ترین نبی، جن کی طرف منسوب کتاب کا کچھ حصہ ابھی حال ہی میں ہم تک پہنچا ہے حضرت ادریس علیہ السلام ہیں۔ غالباً آپ نے سنا ہوگا کہ فلسطین میں بحر مردار کے پاس بعض غاروں سے کچھ مخطوطے ملے ہیں۔ ان مخطوطوں میں سے ایک کتاب حضرت اخنوخ یا انوخ یعنی حضرت ادریس علیہ السلام کی طرف منسوب ہے۔ حال ہی میں اس کتاب کے کچھ ترجمے انگریزی زبان میں شائع ہوئے ہیں۔ اگر چہ اس بات کا کوئ حتمی و قطعی ثبوت موجود نہیں، لیکن اب تک کی تحقیق کے مطابق ہم اسے قدیم ترین نبی کی کتاب کہ سکتے ہیں۔ اس کتاب میں آخری نبی کی بشارت بھی ہے، جس کو بعد میں عہد جدید (انجیل) کے باب “مکتوب یہودا” نے بھی نقل کیا ہے۔ حضرت ادریس علیہ السلام کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق بھی ہمیں کچھ اشارے ملتے ہیں۔ عراق میں “صابیہ” کے نام سے ایک چھوٹا سا گروہ پایا جاتا ہے جس کا ایک مستقل دین ہے ان کا یہ دعویٰ ہے کہ “ہم حضرت نوح علیہ السلام کی کتاب اور ان کے دین پر عمل پیرا ہیں” ان کا کہنا ہے کہ “ایک زمانے میں حضرت نوح علیہ السلام کی پوری کتاب ہمارے پاس موجود تھی لیکن امتداد زمانہ کے سبب سے اب وہ ناپید ہے۔ اس کے مندرجات صرف چار پانچ سطروں میں ہمارے پاس موجود ہیں۔ جن میں اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے”۔ اس کے بعد ایک اور نبی آئے ہیں جن کی کتاب کا ذکر خود قرآن مجید میں موجود ہے۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ (صحف ابراہیم و موسیٰ) دو مرتبہ قرآن مجید میں اس کا ذکر آیا ہے۔ ان کی کتاب کے مندرجات یہودی اور عیسائ ادبیات میں تو نہیں قرآن میں چند سطروں کی حد تک محفوظ ملتے ہیں۔ اسی طرح بعض ایسے انسان بھی ہیں جن کو صراحت کے ساتھ نبی تو تسلیم نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کی نبوت کے امکان کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سے ایک شخصیت “زردشت” کی ہے۔ پارسی انہیں اپنا نبی مانتے ہیں۔ ان کی نبوت کا امکان اس بنا پر بھی ہے کہ قرآن مجید میں مجوس قوم کا ذکر آیا ہے۔ مجوسیوں کا مذہب زردشت کی لائ ہوئ کتاب “آوستا پر مبنی ہے” آوستا کے متعلق ہم تک کچھ معلومات پہنچی ہیں۔ جب ہم اس کا قرآن مجید سے موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کس کو کیا برتری حاصل ہے؟ زردشت کی کتاب اسوقت کی “زند” زبان میں تھی۔ کچھ عرصے بعد ایران پردوسری قوموں کا غلبہ ہوا اور نئے فاتحین کی زبان وہاں رائج ہوئی۔ پرانی زبان متروک ہوتی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک بھر میں مٹھی بھر عالم اور مختصصین کے سوا زند زبان جاننے والا کوئ نہ رہا اس لیے زردشتی مذہب کے عماء نے نئ زبان پازند میں اس کتاب کا خلاصہ اور شرح لکھی۔ آج کل ہمارے پاس اس نسخے کا صرف دسواں حصہ موجود ہے۔ باقی غائب ہوچکا ہے۔ اس دسویں حصے میں کچھ چیزیں عبادات کے متعلق ہیں اور کچھ دیگر احکام ہیں۔ بہر حال دنیا کی ایک قدیم دینی کتاب کو ہم آوستا کے نام سے جانتے ہیں لیکن وہ مکمل حالت میں ہم تک نہیں پہنچ سکی ہے۔ یہاں ایک چیز کا میں اشارۃً ذکر کروں گا۔ آوستا میں دوسری باتوں کے علاوہ زردشت کا یہ بیان ملتا ہے: “میں نے دین کو مکمل نہیں کیا۔ میرے بعد ایک اور نبی آئے گا جو اس کی تکمیل کرے گا۔ اور اس کا نام رحمتہ للعالمین ہوگا” یعنی ساری کائنات کے لیے باعث رحمت۔

ہندوستان میں بھی کچھ دینی کتابیں پائ جاتی ہیں۔ اور ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ یہ خدا کی طرف سے الہام شدہ کتابیں ہیں۔ ان مقدس کتابوں میں دید، پران، اپنشد اور دوسری کتابیں شامل ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سب کتابیں ایک ہی نبی پر نازل ہوئی ہیں۔ ممکن ہے متعدد نبیوں پر نازل ہوئ ہوں، بشرطیکہ وہ نبی ہوں، ان میں بھی خصوصاً “پران” نامی کتابوں میں کچھ دلچسپ اشارے ملتے ہیں “پران” وہی لفظ ہے جو اردو میں “پرانا” یعنی قدیم ہے۔ اس کی طرف ہمیں قرآن مجید میں ایک عجیب و غریب اشارہ ملتا ہے: (وانہ لفی زبر الاولین 26:196) اس چیز کا پرانے لوگوں کی کتابوں میں ذکر ہے)۔ میں نہیں جانتا کہ اس کا پران سے کوئ تعلق ہے یا نہیں؟ بہرحال دس پران ہیں، ان میں سے ایک میں یہ ذکر آیا ہے کہ “آخری زمانے میں ایک شخص ریگستان کے علاقے میں پیدا ہوگا۔ اس کی ماں کا نام قابل اعتماد، اور باپ کا نام، اللہ کا غلام ہوگا۔ وہ اپنے وطن سے شمال کی طرف جاکر بسنے پر مجبور ہوگا۔ اور پھر وہ اپنے وطن کو متعددد بار دس ہزار آدمیوں کی مدد سے فتح کرے گا۔ جنگ میں اس کی رتھ کو اونٹ کھینچیں گے اور وہ اونٹ اس قدر تیز رفتار ہوں گے کہ آسمان تک پہنچ جائیں گے”۔ اس کتاب میں جو مذکورہ الفاظ ہمیں ملتے ہیں ان سے ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ مستنبط کیا جاسکے۔

ان پرانی کتابو کے علاوہ وہ کتابیں ہیں جو مسلمانوں میں بالخصوص معروف ہیں، یعنی توریت، زبور اور انجیل۔ قبل اسکے کہ قرآن مجید کا آپ سے ذکر کروں بطور تمہید ان کا بھی چند الفاظ میں ذکر کروں گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو کتاب نازل ہوئ وہ “توریت” کہی جاتی ہے۔ لیکن دراصل توریت اس کتاب کا ایک جزو ہے، توریت کے معنی ہیں “قانون”۔ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف پانچ کتابیں منسوب کرتے ہیں، پہلی کتاب “کتاب پیدائش” کہلاتی ہے۔ دوسری کتاب “کتاب خروج” جو مصر سے نکلنے کے حالات پر مشتمل ہے۔ تیسری کتاب “قانون” ہے۔ چوتھی کتاب کا نام “اعداد و شمار ہے” کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حکم دیا تھا کہ یہودیوں کی قبیلے وار مردم شماری کی جائے۔ پانچویں کتاب “تثنیہ” کے نام سے موسوم ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ پرانی چیزوں کو دوبارہ دہرایا جائے، ان کو up to date کیا جائے یا ان کی تشریح کی جائے۔ شروع شروع میں یہودیوں کے ہاں یہ پانچویں کتاب (تثنیہ) نہیں پائ جاتی تھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کوئ چھ سو سال بعد ایک جنگ کے زمانے میں ایک شخص ملک کے اس وقت کے یہودی بادشاہ کے پاس ایک کتاب لایا اور کہا کہ مجھے یہ کتاب ایک غار سے ملی ہے۔ معلوم نہیں کس کی ہے، مگر اس میں دینی احکام نظر آتے ہیں۔ بادشان نے اپنے زمانے کی ایک نبیہ عورت کے پاس اس نسخے کو بھیجا (یہودیوں کے ہاں عورتیں بھی نبی رہی ہیں یا کم از کم وہ اس کا دعویٰ کرتے ہیں) اس نبیہ نے جس کا نام ہلدا HULDA بیان کیا جاتا ہے یہ کہلا بھیجا کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی کی کتاب ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چھ سو سال بعد اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کیا جانے لگا۔ اس کتاب کو “تثنیہ” کا نام اس لیے دیا گیا کہ اس میں پہلی چار کتابوں کے احکام میں سے کچھ احکام خلاصے کے طور پر اور کچھ اضافے کے ساتھ دہرائے گئے ہیں۔ بہر حال ان پانچ کتابوں کی سرگزشت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد آنے والے انبیاء کے زمانے میں یہودیوں نے فلسطین کا کچھ حصہ فتح کیا اور وہاں حکومت شروع کی تو کچھ عرصے بعد عراق کے حکمران بخت نصر (نبوکدنوصور) نے فلسطین پر حملہ کیا۔ چونکہ اس کا دین یہودیوں کے دین سے مختلف تھا اس لیے اس نے صرف ملک فتح کرنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ن دشمنوں کے دین کو بھی دنیا سے نیست و نابود کرنے کے لیے توریت کے تمام قلمی نسخوں کو جمع کرکے آگ لگادی۔ حتیٰ کی توریت کا ایک نسختہ بھی باقی نہ رہا۔ یہودی مورخوں کے مطابق اس کے ایک سو سال بعد ان کے ایک نبی “حضرت عزرا” Esdra نے جو (شاید حضرت عزیر علیہ السلام ہوں) یہ کہا کہ مجھے توریت زبانی یاد ہے۔ انہوں نے توریت املا کروائ۔ توریت کے اس اعادے کے کچھ عرصے بعد روما کے ایک حکمران نے فلسطین پر حملہ کیا۔ سپہ سالار کا نام انٹیوکس تھا اس نے بھی وہی کام کیا جو بخت نصر نے کیا تھا۔ یعنی یہودیوں کی کتابیں جمع کرکے جلادیں۔ اس طرح دوسری مرتبہ وہ نابود کردی گئیں۔ اس کے کچھ عرصے بعد ایک اور رومی حکمران نے طیطس نامی کمانڈر کی ماتحتی میں ایک فوج بھیجی اور اس نے تیسری مرتبہ، فلسطین میں دستیاب شدہ یہودیوں کی تمام کتابوں کو جلادیا۔ اب ہمیں توریت کے نام سے جو کتاب ملتی ہے وہ بائبل کے حصہ عہد نامہ عتیق (Old Testament) میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب پانچ کتابیں ہیں۔ یہ کتابیں تین چار مرتبہ کی آتش زدگی کے بعد اعادہ شدہ شکلیں ہیں۔ ان کا اعادہ کس طرح ہوا اور کس نے ان کا اعادہ کیا اس کے متعلق ہمیں کوئ علم نہیں۔ البتہ جو شخص ان کتابوں کو پڑھتا ہے تو اسے دوچیزوں سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے ایسی چیزیں نظر آتی ہیں جو کھٹکتی ہیں اور اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ اصل میں نہ ہوں گی بالکہ بعد کا اضافہ ہیں۔ بعض مقامات پر کمی محسوس ہوتی ہے اور تشنگی باقی رہتی ہے چنانچہ بعض چیزیں جو زیادہ ہوگئی ہیں وہ اس طرح ہیں کہ جو کتاب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب ہے اس میں وہ باتیں ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد پیش آئیں۔ اگر آپ کتاب “تثنیہ” پڑھیں تو اس کے آخری باب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بیماری، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تدفین اور اس کے بعد کے واقعات کا ذکر ملتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ حصہ بعد کا اضافہ ہے۔ مگر یہ تو ایسی باتیں ہیں جنہیں ہر پڑھنے والا فوراً محسوس کرلیتا ہے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس میں دیگر کتنی چیزوں کا اضافہ ہوا ہے جو غیر محسوس ہوں۔ اسی طرح جن چیزوں کی کمی نظر آتی ہے یا جن کا وہاں ہونا ضروری تھا مگر نہیں ہیں وہ ایسی ہیں کہ کم از کم بیس مرتبہ اس طرح کے الفاظ ملتے ہیں کہ اس حکم کی تفصیلیں فلاں باب میں ملیں گی۔ جن ابواب کے حوالے دئے گئے ہیں ان میں سے ایک بات کا نام “خدا کی جنگیں” اور ایک اور باب کا نام “مخلص اور نیک لوگوں کی کتاب” ہے۔ اور وہ باب سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ یہ کچھ باتیں توریت کے متعلق تھیں جو میں نے آپ سے بیان کیں۔ توریت ضخیم صورت میں ہمارے پاس موجود ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں میں اس کے ترجمے ہوچکے ہیں۔

توریت کے بعد مسلمانوں میں عام طور پر زبور کا نام لیا جاتا ہے اور ہمارا تصور یہ رہا ہے کہ یہ بھی توریت اور انجیل ہی کی طرح ایک مستقل کتاب ہے۔ لیکن عہد نامہ عتیق (Old Testament) میں جو چیز حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف منسوب ہے اور جس کو وہ سام Psalm یعنی زبور کے نام سے موسوم کرتے ہیں اس میں صرف خدا کی حمدو ثناء کی نظمیں ہیں۔ کوئ نیا حکم نہیں ہے۔ ہمارا یہ تصور ہے کہ ہر نبی ایک نئ شریعت لاتا ہے لیکن اس کتاب میں ایسی کوئ نئی شریعت نہیں ملتی۔ تاہم جس طرح پرانی کتابوں میں (کتاب ادریس سے لے کر ایران کے آوستا تک) ایک آخری نبی علیہ السلام کی بشارت ملتی ہے اس طرح زبور میں بھی ایسی چیزیں ملتی ہیں۔ نیز جو سرگزشت توریت کی رہی وہی زبور کی بھی رہی ہے اس لیے میں اس کو چھوڑ کر اب انجیل کا ذکر کرتا ہوں۔

انجیل کے متعلق مسلمانوں کا تصور عام طور پر یہ ہے کہ وہ ایک مستقل کتاب تھی جو خدا کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئ۔ لیکن ہمارے پاس عیسائیوں کے توسط سے جو انجیل پہنچی ہیں وہ ایک نہیں بلکہ چار انجیلیں ہیں، جو یہ ہیں متی Matthew، مرقس Mark، لوقا Luke، یوحنہ John۔ ہر انجیل ایک الگ آدمی کی طرف منسوب ہے۔ یہ چار کتابیں بھی ساری انجیلیں نہیں ہیں بلکہ خود عیسائ مورخوں کے مطابق ستر سے زیادہ انجیلیں پائ جاتی ھیں جن میں سے ان چار کو قابل اعتماد اور باقی کو مشتبہ قرار دیا گیا ہے ان کو پڑھنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے الہام یا وحی پر مشتمل نہیں بلکہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمریاں ہیں۔ چار شخصوں نے یکے بعد دیگرے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمری لکھی اور ہر ایک نے اس کو انجیل کا نام دیا۔ لفظ انجیل کے معنی ہیں ” خوشخبری” اور اس کی وجہ تسمیہ غالباً یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جو حالات زندگی انجیل میں ملتے ہیں ان کے مطابق عام طور پر وہ کسی گاؤں میں جایا کرتے تھے اور وہاں کے لوگوں سے کہتے تھے کہ میں بشارت دیتا ہوں کہ خدا کی حکمرانی اب جلد آنے والی ہے۔ شاید اس اساس پر کتاب کا نام بھی یہی ہوگیا لیکن اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کوئ کتاب نازل ہوئ تھی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اسے لکھوایا نہیں اس لیے آج دنیا میں اس کا کوئ وجود نہیں۔ اب جو انجیلیں موجود ہیں، ان کی حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے مختلف زمانوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمریاں لکھیں اور ان سوانح عمریوں کو ہر مؤلف نے انجیل کا نام دیا۔ ان میں سے چار کو کلیسا نے قابل اعتماد قراردیا ہے اور باقی کو رد کیا ہے۔ ان چار انجیلوں کے انتخاب کے متعلق کسی کو کوئ علم نہیں کہ ان کو کس نے انتخاب کیا، کب انتخاب کیا اور کن معیارات کو سامنے رکھ کر انتخاب کیا؟ بہر حال اس بات پر سب متق ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لکھوائ ہوئ کتاب دنیا میں موجود نہیں ہے۔ جو چیز اس وقت ہمارے پاس انجیل کے نام سے ملتی ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمریاں ہیں۔ انہیں ہم “سیرت حضرت عیسٰی علیہ السلام” کہہ سکتے ہیں۔ بعینہ جس طرح مسلمانوں کے ہاں سیرت نبوی کی کتابیں پائ جاتی ہیں۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے آپ پر نازل شدہ احکام کو لکھوایا کیوں نہیں تھا؟ میرے ذہن میں جو جواب آتا ہے (ممکن ہے غلط ہو) وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ ان سے پہلے کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو توریت نازل ہوئ تھی اس کی کیا درگت بنی۔ دشمن حملہ کرتے ہیں اس کی توہین کرتے ہیں اسے جلادیتے ہیں اور نیست و نابود کردیتے ہیں۔ غالباً انہوں نے یہ سوچا کہ کہیں میری کتاب کا بھی وہی حشر نہ ہو۔ لہٰذا بہتر ہے کہ اسے لکھوایا ہی نہ جائے۔ اس طرح یہ کتاب لوگوں کے ذہنوں میں رہے گی۔ عبادت گزار نیک لوگ اسے ادب سے یاد رکھیں گے اور اپنے بعد کی نسلوں تک پہنچائیں گے۔ شاید یہی تصور ہو جس کی بنا پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی انجیل کو نہ لکھوایا۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ خدا چونکہ ازلی اور ابدی علم کا مالک ہے اس لیے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ حضرت آدم کو ایک حکم دے اور بعد کے نبی کو کوئ دوسرا اس کے بالکل برعکس حکم دے۔ البتہ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ ایک نبی کو کچھ احکام اور بعد کے نبی کو کچھ اور احکام اضافے کے ساتھ دیے جائیں۔ فرض کیجئے کہ حضرت آدم علیہ السلام پر نازل شدہ کتابیں آج دنیا میں صحیح حالت میں موجود ہوتیں تو (میرا تصور یہ ہے کہ) خدا کو کوئ نئ کتاب بھیجنے کی کوئ ضرورت نہ ہوتی۔ وہی کتاب آج بھی کارآمد ہوتی۔ لیکن جس طرح ابھی ہم نے اس مختصر مطالعے میں دیکھا کہ پرانے انبیاء کی کوئ کتاب بھی بلا استثناء ہم تک من و عن کامل صورت میں نہیں پہنچی ہے اس لیے خدا نے چاہا کہ ایک مرتبہ انسان کو ایسی مکمل کتاب دی جائے جس میں تمام احکام ہوں اور اس کی مشیت یہ بھی ہوئ کہ یہ کتاب محفوظ رہے۔ وہ کتاب قرآن مجید ہے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button
× How can I help you?