مسند احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ میں ایک حدیث ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ “اللہ نے حضرت آدم سے لے کر مجھ تک ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے۔ جن میں سے تین سو پندرہ صاحب کتاب تھے”۔ تین سو پندرہ صاحب کتاب نبیوں کے نام نہ تو قرآن مجید میں ہیں اور نہ احادیث میں ان کا ذکر ہے، لہٰذا ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ ان کی تفصیل معلوم کرسکیں۔ صرف چند اشارے ملتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام پر دس صحیفے نازل ہوئے تھے۔ لیکن یہ ہماری بدنصیبی ہے ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کس زبان میں تھے۔ چہ جائیکہ ان کے مندرجات کا علم ہو۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹھے حضرت شیث علیہ السلام بھی پیغمبر تھے ان کے متعلق بعض روایات میں ذکر ملتا ہے کہ ان پر بھی چند کتابیں نازل ہوئی تھیں۔ لیکن ان کا بھی دنیا میں اب کوئ وجود نہیں۔ قدیم ترین نبی، جن کی طرف منسوب کتاب کا کچھ حصہ ابھی حال ہی میں ہم تک پہنچا ہے حضرت ادریس علیہ السلام ہیں۔ غالباً آپ نے سنا ہوگا کہ فلسطین میں بحر مردار کے پاس بعض غاروں سے کچھ مخطوطے ملے ہیں۔ ان مخطوطوں میں سے ایک کتاب حضرت اخنوخ یا انوخ یعنی حضرت ادریس علیہ السلام کی طرف منسوب ہے۔ حال ہی میں اس کتاب کے کچھ ترجمے انگریزی زبان میں شائع ہوئے ہیں۔ اگر چہ اس بات کا کوئ حتمی و قطعی ثبوت موجود نہیں، لیکن اب تک کی تحقیق کے مطابق ہم اسے قدیم ترین نبی کی کتاب کہ سکتے ہیں۔ اس کتاب میں آخری نبی کی بشارت بھی ہے، جس کو بعد میں عہد جدید (انجیل) کے باب “مکتوب یہودا” نے بھی نقل کیا ہے۔ حضرت ادریس علیہ السلام کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق بھی ہمیں کچھ اشارے ملتے ہیں۔ عراق میں “صابیہ” کے نام سے ایک چھوٹا سا گروہ پایا جاتا ہے جس کا ایک مستقل دین ہے ان کا یہ دعویٰ ہے کہ “ہم حضرت نوح علیہ السلام کی کتاب اور ان کے دین پر عمل پیرا ہیں” ان کا کہنا ہے کہ “ایک زمانے میں حضرت نوح علیہ السلام کی پوری کتاب ہمارے پاس موجود تھی لیکن امتداد زمانہ کے سبب سے اب وہ ناپید ہے۔ اس کے مندرجات صرف چار پانچ سطروں میں ہمارے پاس موجود ہیں۔ جن میں اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے”۔ اس کے بعد ایک اور نبی آئے ہیں جن کی کتاب کا ذکر خود قرآن مجید میں موجود ہے۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ (صحف ابراہیم و موسیٰ) دو مرتبہ قرآن مجید میں اس کا ذکر آیا ہے۔ ان کی کتاب کے مندرجات یہودی اور عیسائ ادبیات میں تو نہیں قرآن میں چند سطروں کی حد تک محفوظ ملتے ہیں۔ اسی طرح بعض ایسے انسان بھی ہیں جن کو صراحت کے ساتھ نبی تو تسلیم نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کی نبوت کے امکان کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سے ایک شخصیت “زردشت” کی ہے۔ پارسی انہیں اپنا نبی مانتے ہیں۔ ان کی نبوت کا امکان اس بنا پر بھی ہے کہ قرآن مجید میں مجوس قوم کا ذکر آیا ہے۔ مجوسیوں کا مذہب زردشت کی لائ ہوئ کتاب “آوستا پر مبنی ہے” آوستا کے متعلق ہم تک کچھ معلومات پہنچی ہیں۔ جب ہم اس کا قرآن مجید سے موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کس کو کیا برتری حاصل ہے؟ زردشت کی کتاب اسوقت کی “زند” زبان میں تھی۔ کچھ عرصے بعد ایران پردوسری قوموں کا غلبہ ہوا اور نئے فاتحین کی زبان وہاں رائج ہوئی۔ پرانی زبان متروک ہوتی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک بھر میں مٹھی بھر عالم اور مختصصین کے سوا زند زبان جاننے والا کوئ نہ رہا اس لیے زردشتی مذہب کے عماء نے نئ زبان پازند میں اس کتاب کا خلاصہ اور شرح لکھی۔ آج کل ہمارے پاس اس نسخے کا صرف دسواں حصہ موجود ہے۔ باقی غائب ہوچکا ہے۔ اس دسویں حصے میں کچھ چیزیں عبادات کے متعلق ہیں اور کچھ دیگر احکام ہیں۔ بہر حال دنیا کی ایک قدیم دینی کتاب کو ہم آوستا کے نام سے جانتے ہیں لیکن وہ مکمل حالت میں ہم تک نہیں پہنچ سکی ہے۔ یہاں ایک چیز کا میں اشارۃً ذکر کروں گا۔ آوستا میں دوسری باتوں کے علاوہ زردشت کا یہ بیان ملتا ہے: “میں نے دین کو مکمل نہیں کیا۔ میرے بعد ایک اور نبی آئے گا جو اس کی تکمیل کرے گا۔ اور اس کا نام رحمتہ للعالمین ہوگا” یعنی ساری کائنات کے لیے باعث رحمت۔
انجیل کے متعلق مسلمانوں کا تصور عام طور پر یہ ہے کہ وہ ایک مستقل کتاب تھی جو خدا کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئ۔ لیکن ہمارے پاس عیسائیوں کے توسط سے جو انجیل پہنچی ہیں وہ ایک نہیں بلکہ چار انجیلیں ہیں، جو یہ ہیں متی Matthew، مرقس Mark، لوقا Luke، یوحنہ John۔ ہر انجیل ایک الگ آدمی کی طرف منسوب ہے۔ یہ چار کتابیں بھی ساری انجیلیں نہیں ہیں بلکہ خود عیسائ مورخوں کے مطابق ستر سے زیادہ انجیلیں پائ جاتی ھیں جن میں سے ان چار کو قابل اعتماد اور باقی کو مشتبہ قرار دیا گیا ہے ان کو پڑھنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے الہام یا وحی پر مشتمل نہیں بلکہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمریاں ہیں۔ چار شخصوں نے یکے بعد دیگرے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمری لکھی اور ہر ایک نے اس کو انجیل کا نام دیا۔ لفظ انجیل کے معنی ہیں ” خوشخبری” اور اس کی وجہ تسمیہ غالباً یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جو حالات زندگی انجیل میں ملتے ہیں ان کے مطابق عام طور پر وہ کسی گاؤں میں جایا کرتے تھے اور وہاں کے لوگوں سے کہتے تھے کہ میں بشارت دیتا ہوں کہ خدا کی حکمرانی اب جلد آنے والی ہے۔ شاید اس اساس پر کتاب کا نام بھی یہی ہوگیا لیکن اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کوئ کتاب نازل ہوئ تھی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اسے لکھوایا نہیں اس لیے آج دنیا میں اس کا کوئ وجود نہیں۔ اب جو انجیلیں موجود ہیں، ان کی حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے مختلف زمانوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمریاں لکھیں اور ان سوانح عمریوں کو ہر مؤلف نے انجیل کا نام دیا۔ ان میں سے چار کو کلیسا نے قابل اعتماد قراردیا ہے اور باقی کو رد کیا ہے۔ ان چار انجیلوں کے انتخاب کے متعلق کسی کو کوئ علم نہیں کہ ان کو کس نے انتخاب کیا، کب انتخاب کیا اور کن معیارات کو سامنے رکھ کر انتخاب کیا؟ بہر حال اس بات پر سب متق ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لکھوائ ہوئ کتاب دنیا میں موجود نہیں ہے۔ جو چیز اس وقت ہمارے پاس انجیل کے نام سے ملتی ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمریاں ہیں۔ انہیں ہم “سیرت حضرت عیسٰی علیہ السلام” کہہ سکتے ہیں۔ بعینہ جس طرح مسلمانوں کے ہاں سیرت نبوی کی کتابیں پائ جاتی ہیں۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے آپ پر نازل شدہ احکام کو لکھوایا کیوں نہیں تھا؟ میرے ذہن میں جو جواب آتا ہے (ممکن ہے غلط ہو) وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ ان سے پہلے کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو توریت نازل ہوئ تھی اس کی کیا درگت بنی۔ دشمن حملہ کرتے ہیں اس کی توہین کرتے ہیں اسے جلادیتے ہیں اور نیست و نابود کردیتے ہیں۔ غالباً انہوں نے یہ سوچا کہ کہیں میری کتاب کا بھی وہی حشر نہ ہو۔ لہٰذا بہتر ہے کہ اسے لکھوایا ہی نہ جائے۔ اس طرح یہ کتاب لوگوں کے ذہنوں میں رہے گی۔ عبادت گزار نیک لوگ اسے ادب سے یاد رکھیں گے اور اپنے بعد کی نسلوں تک پہنچائیں گے۔ شاید یہی تصور ہو جس کی بنا پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی انجیل کو نہ لکھوایا۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ خدا چونکہ ازلی اور ابدی علم کا مالک ہے اس لیے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ حضرت آدم کو ایک حکم دے اور بعد کے نبی کو کوئ دوسرا اس کے بالکل برعکس حکم دے۔ البتہ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ ایک نبی کو کچھ احکام اور بعد کے نبی کو کچھ اور احکام اضافے کے ساتھ دیے جائیں۔ فرض کیجئے کہ حضرت آدم علیہ السلام پر نازل شدہ کتابیں آج دنیا میں صحیح حالت میں موجود ہوتیں تو (میرا تصور یہ ہے کہ) خدا کو کوئ نئ کتاب بھیجنے کی کوئ ضرورت نہ ہوتی۔ وہی کتاب آج بھی کارآمد ہوتی۔ لیکن جس طرح ابھی ہم نے اس مختصر مطالعے میں دیکھا کہ پرانے انبیاء کی کوئ کتاب بھی بلا استثناء ہم تک من و عن کامل صورت میں نہیں پہنچی ہے اس لیے خدا نے چاہا کہ ایک مرتبہ انسان کو ایسی مکمل کتاب دی جائے جس میں تمام احکام ہوں اور اس کی مشیت یہ بھی ہوئ کہ یہ کتاب محفوظ رہے۔ وہ کتاب قرآن مجید ہے۔