Blog

اسمائے حسنہ

 

اسمائے حسنہ کا موضوع

* اگر آپ اسم سلام پڑھو گے تو آپ کو آزمانے کے لیے کہ سلام کا کیا فائدہ ہے، اللہ آپ کی بے چینیاں بڑھا دے گا۔۔۔۔اصولاً کچھ عرصے کے لیے آپ کو پتہ تو چلے کہ سلام کا فائدہ کیا ہوا۔ اگر وہ کلمہ آزمایا ہی نہیں گیا تو کیا فائدہ ۔ گاڑی کتنی بھی اچھی ہو، بریکیں تو بار بار لگا کر دیکھنا پڑے گا۔۔۔ کہ واقعی جتنےدعوے کیے جارہے ہیں کیا وہ درست ہیں ۔ یہ جو الله کہہ رہا ہے کہ سلامتی اس میں ہے، آخر کچھ آزمایا جائے گا۔ آپ محسوس کریں گے کہ پہلی بے چینیوں میں میرا اضطراب اس طرح کا تھا۔ اب بھی بے چینی موسم کی طرح آتی ہے اور خزاں اور بہار کی طرح گزر جاتی ہے۔ لیکن میں نہیں بدلتا۔
* جب آپ تسبیحات شروع کرتے ہیں، تو آپ کی بڑھی ہوئی بے چینیاں کم ہونا شروع ہو جاتی
ہیں ۔ جب درود پڑھا جاتا ہے تو منفی کیفیت علیحدہ علیحدہ رجسٹر ہوتی ہے۔
* بہت سارے لوگ مرتکز ہو جاتے ہیں۔ اکثر جعلی حکماء اور جعلی پیروں کی وجہ سے تسبیح کو طور طریقوں میں قید کر لیتے ہیں ۔ اس معاملے میں قدرت اللہ شہاب جیسے لوگوں سے غلطیاں ہوئی ہیں کہ ایک جگہ چن لو، وہاں سجدے کرو۔۔۔تسبیح کرو۔ مچھلی کے پیٹ میں کون سی مخصوص جگہ تھی کہ حضرت یونس تسبیح کر رہے تھے؟ شجر حجر میں کون سی جگہ ملتی ہے؟ زمین و آسمان میں تسبیح کے لیے وقت اور مقام کا تعین کیسے اور کیونکر ممکن ہے؟
* اس طرح تو تسبیح ہو ہی نہیں سکتی۔ اس لیے کہ ہر وقت کی یاد کہاں ممکن ہے۔ وہ پرندے کہ فضاؤں میں پرکھولتے ہیں، تسبیح خداوند بیان کرتے ہیں۔ وہ اپنی عموی سرگرمی میں ایسا کرتے ہیں ۔ پھر وہ پتھر جن کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ انسانوں سے کم سنگ والے ہیں ۔ خوف خدا سے کانپتے ہیں اور ان سے چشمے پھوٹتے ہیں۔
* قرآن حکیم میں بڑی وضاحت سے بتایا گیا ہے کہ آپ چلتے پھرتے
فاز کرو الله قياماً و قعوداً وعلى جنوبهم،
میرا ذکر کرو کھڑے، بیٹھے، پہلو کے بل لیٹے، مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔
⁦متعین اسمائے حسنہ ہی کیوں ؟
* ایک وجہ یہ ہے کہ زمانے کا ایک کی نوٹ (Key note) ہوتا ہے۔ اس زمانے کا “‘کی نوٹ” ڈر اور ذہنی انتشار ہے۔ ہسپتال بھرے پڑے ہیں۔ دوائیاں بازاروں میں موجود ہیں، لوگ اچھے نہیں ہیں۔ مزید بیمار ہوتے جاتے ہیں ۔
* گزشتہ تیسں برس کے دوران بیماری میں ایک اور پہلو کا اضافہ ہوا ہے اور اس کا تعلق ان کی جسمانی بیماری سے نہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس پہلو میں ایک بڑی تیز رفتاری آتی ہے۔ مثلا میں اب لاہور جانا ہو تو کہتا ہوں کہ صبح دس بجے چلیں گے۔ اس طرح ٹائم آگے چلا گیا ہے۔ وہ صبح چار چھے بجے جاگنے والی مخلوق ناپید ہوگئی ہے۔ اس طرح زمانے میں ایک اضافی عنصر تیز رفتار رومانویت ہے۔ پوری زندگی کی جدوجہد میں ایک تیز تر رومانویت آ گئی ہے ہر چیز اور ہر ایج میں عجلت آ گئی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ تصوف میں سنجیدگی اور متانت کم ہوگئی ہے۔ اب آپ جدھر بھی تصوف میں جائیں، آپ کو ایک دم لگے گا کہ لوگ جذب و مستی کو پسند کرتے ہیں، کیونکہ صبر نہیں ہے۔ بے صبری میں انسان مضطرب اور بے چین ہے۔
* تصوف ایک ذہنی حالت سے دوسری ذہنی حالت کو جاننے کو کہتے ہیں ۔ ہماری ذہنی حالت موجودہ دور میں اختیار، دولت اور حیثیت سے آگے نہیں نکل رہی۔ خدا تک کون پہنچے گا۔ خدا تک جائیں گے تب ہی سارے کے سارے یہ نچلے پیڑن ختم ہوسکتے ہیں ۔
* یہی وجہ ہے کہ میں تسبیحات میں خاص طور پر خدا کے وہ نام شامل کرتا ہوں، جیسے سلام اور مومن ہیں ۔
 اس میں سلام واحد اسم ہے، جو مکمل ہیجان کوتوڑتا ہے۔ ذہن میں بے چینی آگ کی طرح ہے۔ جیسے باہر آ گ لگی ہوئی ہو،
 اسی طرح آپ کے ذہن میں بے چینی بھڑک رہی ہے۔
* حتی کہ جب نارنمرود کے شعلے بلند ہورہے تھے تو اللہ نے آواز دی کہ اے آگ ٹھنڈی ہو جا۔ اپنی
فطرت چھوڑ دے تو اس میں بھی اسم سلام ہے۔ اسم سلام سے بندے کی فطرت بے چینی پر اثر پڑتا
ہے اور وہ اس کی فطرت کو تبدیل کر دیتا ہے۔ خدا کے سوا کوئی فطرت کو تبدیل نہیں کرسکتا۔
* حدیث مبارک ہے کہ اگر کوئی یہ کہے، احد پہاڑ سونے میں بدل گیا ہے تو مان لینا لیکن کوئی یہ کہے کہ فلاں شخص کی فطرت بدل گئی ہے تو یہ نہ ماننا۔ اس کے لیے آج کے دنوں میں مختلف طریقوں سے مقامی اثرات کو بیلنس کیا جاتا ہے۔ پڑھائی لکھائی سے کلچر ٹھیک کر لیا جاتا ہے۔ کچھ عادات ظاہرہ بدل لی جاتی ہیں ۔ مگر ہم اپنی جینیات کو تبدیل نہیں کرتے ۔ نہ ان کو تبد یل کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ کروموسوم کی خاصیت تبدیل ہوتی ہے اور یہ کام صرف اللہ کی یاد کرسکتی ہے۔
* شب قدر کا بھی بنیادی رول سلام ہے۔ سلامهی حتی مطلع الفجر اس دن ملائکہ عالیہ اسم سلام کے سائے تلے اترتے ہیں اور یہ رات فیصلے کی رات ہے۔ جس بندے میں ذرا سا بھی خلوص پایا جاتا ہے، جبرئیل امین اسے مس کرتے ہیں۔ اس کی صلاحیت بڑھا دیتے ہیں اور اس کے اثرات اس کے بدن پر ظاہر ہوتے ہیں۔ بدن میں مقناطیسی ٹچ پیدا ہوتا ہے، جو آپ کی آئنده زندگی کو بہتری کی طرف لے جاتا ہے۔
* مومن اور مهيمن حفاظت قلب کے لیے ہیں ۔ دل جو اضطراب کی آماجگاہ ہے۔ جوکبھی بھی عقل کی کم ہی سنتا ہے، اس کے اپنے اندر کی سپیس ہے۔ دل سپیسں پر قائم ہوتا ہے۔ ہم روز مرہ کی زندگی میں کسی کو چھوٹے اورکسی کو بڑے دل والا کہتے ہیں۔ دل کی سپیسں کشادہ نہیں ہوتی، جب تک آپ کے اوپرمشقتیں نہ آ ئیں ۔ جیسے کوئی شخص پہلے دن بیمار ہوا تو اس کا ردعمل کچھ اور تھا۔ اس کا واویلا تھا، میں اسے برداشت نہیں کرسکتا۔ مجھے جلدی نجات ہو۔۔۔ تین سال بعد بھی وہ اسی بیماری میں ہوتا ہے اور اسے برداشت کر رہا ہوتا ہے۔ شور اسی طرح مچا رہا ہوتا ہے کہ اس کی سپیس ہی نہیں بنی۔ اس کا صبر اس قابل نہیں ہوا کہ وہ احساسی طور پر اس سٹیج کوحاصل کر سکے ، جہاں وہ اپنے درد اور المیے سے آگے جا سکتا۔
* الله کا یہ ارشاد بجا ہے لا یکلف الله نفسا الاوسعها. کہ ہم کسی جان پراس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔ جس انسان کو جو مسئلہ بھی ہو، اس کی برداشت کرنے کی صلاحیت اس کے پاس ہے لیکن بالعموم لوگ اسے بھی حاصل نہیں کر پاتے۔ پھر اللہ نے کہا الا بذكر الله تطمئن القلوب. تم ہر چیز میں مال خواہشات اور اسٹیٹس پا سکتے ہو مگر دل کا اطمینان نہیں پا سکتے۔ یہ میرے ذکر اور میری یاد کے بغیر ممکن نہیں۔ دل کا ذکر اس کی حفاظت ہے۔
اسم مومن اور مھیمن کے دونوں الفاظ حفاظت قلب کے لیے ہیں۔
* تیسراکلمہ یا رحمان یا رحیم یا کریم ہے۔ بنیادی طور پر میں بڑاخودغرض سابنده
ہوں ۔ اگر مجھ سے خدا نے کوئی وعدہ کیا ہے تو میں اسے بار بار یاد کراؤں گا۔ میری دانشمندی یہ ہے
کہ میں اپنابال ( Ball )خدا کی کورٹ میں پھینک دوں، نہ کہ اس کا بال میری کورٹ میں ہو۔ میرا فرض تھا اللہ کو دیکھنا، سمجھنا اس کو یاد کرتا اور وہ میں کر رہا ہوں۔ اب میں اللہ سے کہتا ہوں کہ اب آپ اپنا وعدہ پورا کرو۔ اس کا وعدہ بڑا صاف ستھرا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے تمہیں پیدا کرنے سے پہلے ہی ایک چیز اپنے اوپر لازم کی تھی کتب على نفسه رحمه. میں نے قرآن حکیم میں یہ معاہدہ
لکھ کر دیا کہ اے حضرت انسان میں ہر حال میں تم پر رحم کروں گا۔ اب اگر اس نے مجھے لکھ کر دیا
ہوا ہے، تو میں تو اسے روز یا دکرا تا رہوں گا اور کہوں گا کہ اے اللہ آپ نے تو یہ لکھ کے دیا ہوا ہے
There is no way out, you have to be very very kind…!
چنانچه تسبیحیات میں یا رحمان یا رحیم یا کریم کے اسماء معاہدے کے الفاظ ہیں۔
* تیسری تسبیح ہر فرد کی انفرادیت کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔ کسی کے لیے یا ذو الجلال والاكرام تو کسی کو یا ولی یا نصیر دیا جاتا ہے۔ یہ ہرفرد کی نیچر میں فرق کے اعتبار سے ہے۔ وہ انفرادی ٹیلنٹ، جو میرے خیال میں زیادہ مضبوط ہو کے رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے کسی شرارت کوافزا کرتا ہے یا کسی کمال کو بڑھارہا ہے تو تیسری تسبیح انفرادی اور اسی پہلو سے تعلق ہوتی ہے۔
( From book ” پس حجاب”
Prof Ahmad Rafique Akhtar)

 

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button
× How can I help you?