Blog

(تاریخ حدیث( حصہ دوئم

ڈاکٹر حمید اللہ

بہر حال اس آبادی میں جس میں یکجہتی نہیں پائ جاتی تھی، ایسا انتظام کرنا کہ سب کی مشترکہ حکومت قائم ہو یہ بظاہر خیال و خواب کی بات معلوم ہوتی ہے۔ مگر اس کی ضرورت تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کی مواخات کے ذریعے سے گزر بسر کا انتظام کرنے کے بعد جو کام کیا وہ یہ تھا کہ ان سارے گروہوں کے نمائندوں کو اپنے پاس بلایا، مسلمان بھی یہودی بھی، صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میرے والد کے مکان پر یہ اجتماع ہوا۔ اس میں یہودیوں کے نمائندے بھی تھے، عربوں کے بھی۔ عربوں میں اوس کے نمائندے بھی تھے، خزرج کے بھی۔ اسلام قبول کرنے والے اوس اور خزرج کے نمائندہ بھی اور وہ بھی جو تاحال مسلمان نہیں ہوئے تھے، اور مہاجرین کے نمائندے بھی تھے۔ ان سب کو جمع کیا اور ان سے مخاطب ہوکر غالباً یہ فرمایا (کیونکہ صراحت نہیں ملتی کہ اجتماع میں کیا چیز شروع میں پیش آئ) کہ آپ اس وقت مختلف قبیلوں میں بٹے ہوئے ہیں اور بالکل ایک دوسرے سے آزاد ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ اگر ایک قبیلہ پر اس کا دشمن باہر سے حملہ آور ہوتا ہے تو باقی سب لوگ غیر جانبدار رہتے ہیں اور اس قبیلہ کو دشمن کی مجموعی قوت سے تنہا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اسے شکست ہو۔ پھر کچھ دنوں کے بعد دوسرے قبیلے پر کوئ بیرونی دشمن حملہ آور ہو اور اسی طرح تیسرے اور چوتھے پر تو نتیجہ یہی ہوگا کہ رفتہ رفتہ دشمنوں کے ہاتھوں سب ختم ہوجاؤ گے۔ اس لیے، کیا یہ مناسب نہیں کہ تم سب قبیلے اپنی ایک مشترکہ حکومت قائم کرو تاکہ تمہاری مشترکہ حکومت کے باعث دشمن کو بھی یہ خوف ہو کہ ہمارا ایک دشمن نہیں، بلکہ بہت سے قبیلے وہاں موجود ہیں وہ سب ہمارا مقابلہ کریں گے اور ہم اپنی تنہا قوت پر اس سارے شہر مدینہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ یہ ایک مشترکہ معاہدہ ہے جو دشمنوں سے تمہارے تحفظ ، تمہارے معاشی اور مالی فوائد کا ضامن ہوگا۔ تجویز معقول تھی اس لیے سبھوں نے یا کم از کم اکثر قبیلوں نے قبول کرلیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اکثر کا لفظ صحیح ہے کیونکہ اس واقعہ کا ذکر ملتا ہے کہ اوس کے چار قبیلے شروع میں اس میں شریک نہیں تھے۔

بہر حال اہل مدینہ کے اجتماع کا مقصد صرف یہی نہ تھا جو میں نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہوگا کہ تمہاری مشترکہ قوت تم سب کی حفاظت کا باعث ہوگی۔ بلکہ ایک اور چیز بھی تھی جس کو ہم اس دستور کے اندر دیکھتے ہیں اور جس پر سب نے اتفاق کیا، وہ یہ کہ ہر قبیلے کو بہت سے امور میں حسب سابق کامل آزادی رہے گی صرف چند چیزوں کے متعلق یہ وضاحت کی گئ کہ وہ بجائے انفرادی کے مشترکہ ہوں گی اور مرکزی حکومت سے متعلق رہیں گی۔ ان مرکزی امور میں سے ایک عسکری مسئلہ بھی تھا یعنی جنگ۔ اجنبیوں سے جنگ کرنا اور صلح کرنا ناقابل تقسیم قرار دیا گیا یعنی یہ نہ ہوگا کہ جنگ صرف ایک قبیلہ سے ہو اور صلح صرف ایک قبیلہ سے ہو اور باقی لوگ اس میں شریک نہ ہوں بلکہ آئندہ سے صلح اور جنگ ناقابل تقسیم، ایک مشترکہ مسئلہ سمجھی جائے گی۔ اسی طرح انشورنس (یعنی بیمہ زندگی) کا ایک انتظام کیا گیا جس کی تفصیل میں آگے بیان کروں گا۔ یہ سب گویا مشترکہ امور قرار پائے۔

عدالت کے متعلق ایک حد تک قبائلی نظام برقرار رکھا گیا لیکن اگر فریقین مقدمہ دو مختلف قبیلوں کے ہوں تو مرکز سے رجوع کرنا ہوگا، اپیل کورٹ کو (اگر ہم ایسا کہہ سکیں) مشترکہ قرار دیا گیا، یعنی جھگڑوں کے آخری فیصلے کے لیے شہر کے حکمران سے رجوع کیا جائے گا۔ اسی طرح اس میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ مذہبی آزادی ہوگی۔ یہود کے لیے یہود کا دین رہے گا، مسلمانوں کے لیے مسلمانوں کا دین، دین میں مذہب، قانون اور عدل گستری سب داخل سمجھے گئے، وغیرہ وغیرہ۔ ایک دستاویز مرتب کی گئ جو ہم تک لفظ بہ لفظ پہنچی ہے اور اس کی 52 دفعات ہیں ان میں تفصیل بتائ گئ ہے کہ کیا کام انجام دینے چاہئیں۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ اس وقت کی اسلامی مملکت کا تحریری دستور تھا۔

ابھی میں نے اشارتاً کہا کہ اس میں کچھ انشورنس کا بھی ذکر ہے۔ یہ ایک عجیب و غریب شے ہے۔ قدیم زمانے میں وہ ضرورتیں جو آج پائ جاتی ہیں نہیں پائ جاتی تھی، اس زمانے کی جو ضرورتیں تھیں وہ آج کل ہمارے لیے بے سود نظر آتی ہیں۔ قدیم زمانے میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں، مدینہ منورہ میں دو مسئلے بہت اہم تھے۔ ایک یہ کہ اگر کوئ شخص غلطی سے (یعنی عمداً نہیں) کسی شخص کے قتل کا مرتکب ہوتا تو اسے خون بہا دینا پڑتا تھا۔ خون بہا کی رقم رواج و قانون کے مطابق اتنی زیادہ تھی کہ عملاً ساری آبادی میں سے ایک آدھ شخص ہی اس کو ادا کرسکتا تھا۔ دوسرے لوگوں کے لیے وہ ناممکن سی بات تھی، یعنی ایک سو اونٹ کی قیمت کا اندازہ یوں کیجئے کہ ایک اونٹ سو آدمیوں کے لیے دن بھر کی پوری غذا کا کام دیتا ہے۔ اس حساب سے سو اونٹ کے معنی ہوئے دس ہزار دن تک ایک شخص کو غذا مہیا کرنا۔ یہ ہوتا تھا خون بہا۔ اتنی بڑی رقم دینا اتنا بڑا خون بہا ادا کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی۔ سوائے مال دار سردار قبیلے کے کسی اور شخص کے لیے یہ ناممکن تھا۔ لیکن یہ واقعات روز مرہ پیش آتے تھے اس کے لیے اجتماعی انشورنس کا انتظام کیا گیا یعنی ایک قاتل ہی اس کا ذمہ دار نہ ہوگا بلکہ پوری انشورنس کمپنی اس کی ذمہ داری قبول کرے گی اور اس کی طرف سے خون بہا ادا کرے گی۔ دوسری چیز جس کی اس زمانے میں ضرورت تھی اور آج ہمارے عہد میں اس کی ضرورت عملاً نظر نہیں آتی وہ یہ ہے کہ کسی شخص کو دشمن گرفتار کر کے قید کرلے تو وہ فدیہ دے کر اپنی آزادی حاصل کرتا تھا۔ یہ فدیہ بھی بہت گراں تھا یعنی سواونٹ فدیہ دینا ہوتا تھا۔ کوئ غریب شخص گرفتار کرلیا جاتا تو اس کی رہائ کی کوئ صورت نہ ہوتی تھی۔ وہ عملاً اپنے دشمن کا غلام بن جاتا۔ ایسے وقت میں انشورنس کمپنی کام دیتی۔ اس کی طرف سے ذمہ داری قبول کرتی اور فدیہ ادا کرتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ انتظام کیا کہ مدینہ منورہ میں ہر ہر قبیلے میں ایک انشورنس یونٹ قائم ہوا اور یہ کہا کہ تمہارے قبیلے کے کسی آدمی کو قتل یا گرفتاری کے سلسلے میں رقم اداکرنی ہو اور وہ شخص ادا نہ کرسکے تو یہ انشورنس یونٹ ادا کرے گی اور اگر کسی یونٹ کے پاس اتنی گنجائش نہ ہوتو حکم تھا کہ اس کی قریبی محلے کی انشورنس یونٹ جو ہے اس کے ساتھ تعاون کرکے رقم ادا کرے اور اگر اس کے پاس بھی نہ ہوتو دوسری یونٹ سے انتظام کیا جائے۔ جب ساری آبادی کی انشورنس یونٹیں بھی بار نہ اٹھاسکیں تو ایسی صورت میں مرکزی حکومت بھی مدد کرے گی۔ یہ ایک خاص نظام تھا جو مدینہ منورہ میں قائم کیا اور اس دستور کے اندر ضبط تحریر میں لے لیا گیا۔ غرض سرکاری طور پر حدیث کے لکھوانے کی ایک مثال یہ دستور مملکت مدینہ کی دستاویز بھی ہے۔ ان ابتدائ کاموں میں ایک اور چیز یہ ہے کہ جب مہاجرین کی بسر و بود کا انتظام مواخات کے ذریعے کردیا گیا اور اس کے بعد شہری مملکت وجود میں آگئ یعنی ایسی مملکت جس کا رقبہ صرف ایک شہر تھا اور اس کے اندر عدالت اور قانون غرض ساری چیزوں کا انتظام کردیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی پر اکتفا نہیں فرماتے ہیں، آپ مکہ کے الٹی میٹم کے جواب میں ایک اقدام فرماتے ہیں وہ اقدام یہ تھا، کہ مدینہ منورہ کے اطراف کا آپ دورہ شروع کردیتے ہیں۔ مثلاً شمال کی طرف جاتے ہیں وہاں کے قبیلوں سے کہتے ہیں تم اس وقت ایک آزاد قبیلہ ہو اور خودمختار ہو، لیکن دشمن سے مقابلہ ہوتو تنہا ہوگے۔ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ہم دونوں میں ایک حلیفی معاہدہ ہوجائے۔ تم پر کوئ دشمن حملہ کرے تو ہم تمہاری مدد کو دوڑیں گے، اگر ہم پر کوئ دشمن حملہ کرے اور ہم تمہیں بلائیں تو تم بھی ہماری مدد کو آنا۔ یہ بات ان کے دل کو لگی اور ان کے ساتھ معاہدہ ہوگیا۔ یہ معاہدہ تحریری طور پر عمل میں آیا اور وہ ہم تک پہنچا ہے۔ پھر آپ مشرق کی طرف جاتے ہیں، پھر جنوب کی طرف، غرض مختلف علاقوں میں، مدینہ کے اطراف میں وقتاً فوقتاً دورہ کرکے ہجرت کے پہلے اور ہجرت کے دوسرے سال مختلف غیر مسلم قبائل سے حلیفی کے معاہدے کیے گئے اور یہ معاہدے تحریری صورت میں لائے گئے اس کے بعد اس کا سلسلہ اور چلتا رہا۔ غرض یہ ابتدائ نظام تھا کہ ایک طرف مدینے کے اندر امن و امان کا اور یکجہتی کا انتظام کیا جائے اور مدینے کے اطراف میں دوست قبائل کا جال پھیلا دیا جائے تاکہ دشمن اگر حملہ کرے تو اولاً اسے ہمارے آس پاس کے قبیلوں سے جنگ کرنا پڑے اور ہم محفوظ رہیں، یہ سیاسی تدبیر تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائ اور جس کے سلسلے میں تحریر کا بار بار ذکر آیا ہے۔

اس کے بعد اور بے شمار چیزیں ایسی ملتی ہیں جو تحریراً عمل میں آئیں ان میں سے بعض چیزیں پرائیویٹ ہیں۔ مثلا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک غلام خریدتے ہیں اس کا پروانہ موجود ہے کہ میں نے یہ غلام فلاں شخص سے خریدا، اتنی رقم دی گئ یا ایک غلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آزاد فرماتے ہیں، اسے آزادی کا تحریری پروانہ دیا جاتا ہے کہ فلاں شخص کو آزاد کیا جاتا ہے، اسے سب تسلیم کرلیں کہ یہ شخص آزاد ہے، اب آئندہ اسے غلام نہ قرار دیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ ایک اور چیز ذرا بعد کی ہے غالباً ٨ ہجری میں رسول اللہ ایک شخص کو خط لکھتے ہیں کہ “جیسے ہی یہ پیغام رساں پہنچے زمزم کا پانی صبح ہوکہ شام فوراً اس کے ہاتھ مجھے بھیجو”۔ اسی طرح مثلاً جب اسلامی مملکت توسیع پاتی ہے تو مختلف اضلاع اور صوبوں کے گونروں کے نام پروانے بھیجے جاتے ہیں کہ فلاں کام انجام دو۔ یا گورنر خود دریافت کرتا ہے کہ اس خاص صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ تو اس کا جواب مدینہ سے بھیجا جاتا ہے۔ غرض سرکاری تحریروں کی کثیر تعداد ہے اور اس وقت ان کی تعداد جو ہم تک پہنچی ہے، کم سے کم چار سو مکتوبات نبی پائے جاچکے ہیں جن میں کچھ تبلیغی بھی ہیں۔ مثلاً قیصر و کسریٰ کو دین اسلام کی دعوت دی گئ ہے۔ کچھ حلیفی کے معاہدے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اب تحریری حدیث کا دوسرا پہلو لیجئے یعنی وہ حدیثیں جو سرکاری تحریریں نہیں ہیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اسے نجی طور پر مرتب کرنا شروع کردیتے ہیں۔ عام طور پر صحابہ کرام امی تھے۔ لکھنا پڑھنا انہیں نہیں آتا تھا لیکن اچھے مختلص مسلمان ضرور تھے۔ جب مدینہ میں ہوتے تو اکثر مسجد نبوی میں حاضر ہوتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو سنتے، اس پر عمل کرتے۔ لیکن ایک واقعہ ایسا پیش آیا جو غالباً آغاز ہے حدیث کے مدون کرنے کا۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک دن ایک صحابی آئے، ان کا نام بیان نہیں ہوا ہے۔ ترمذی میں یہ حدیث موجود ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا “یا رسول اللہ! آپ روزانہ جو چیزیں ہمیں بیان کرتے ہیں وہ بے حد دلچسپ، بے حد اہم اور ضروری ہوتی ہیں لیکن میرا حافظہ کمزور ہے، میں انہیں بھول جاتا ہوں، کیا کروں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں الفاظ فرمائے “استعن بیمینک” (اپنے سیدھے ہاتھ سے مدد لو) یعنی لکھ لیا کرو۔ غالباً انہوں نے اس اجازت سے فائدہ اٹھایا ہوگا اور لکھا ہوگا۔ ہمیں، بعد میں کیا ہوا، اس کے متعلق تفصیل نہیں ملتی۔ بعد میں ایک دوسرا واقعہ جو غالباً اسی حکم اور “استعن بیمینک” کے الفاظ کا نتیجہ سمجھنا چاہیے وہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے۔ یہ نوجوان تھے غالباً سولہ سترہ سال کی عمر ہوگی۔ بے حد ذہین، بے حد دیندار اور علمی ذوق رکھنے والے تھے۔ ان کے علمی ذوق کا اندازہ اس سے کیجئے کہ بعد میں انہوں نے سریانی زبان بھی سیکھی اور وہ عیسائیوں کی دینی کتاب انجیل کو سریانی زبان میں پڑھ بھی سکتے تھے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت بھی دی تھی کہ اپنے علمی مشاغل جاری رکھیں۔ یعنی قرآن کے ساتھ ساتھ بائیبل بھی پڑھ سکتے ہیں۔ غرض عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب یہ سنتے ہیں کہ فلاں شخص کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “استعن بیمینک” تو انہوں نے خود لکھنا شروع کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ بھی سنتے اسے فوراً نوٹ کرلیتے تھے۔ دو چار دن غالباً اسی طرح کا واقعہ گزرا ہوگا، پھر ان کے دوستوں نے ان سے کہا “اے عبداللہ یہ تم کیا کررہے ہو؟ رسول اللہ بشر ہیں، کبھی خوش ہوتے ہیں، کبھی خفا ہوتے ہیں، تم ان کی ہر چیز نوٹ کرتے جارہے ہو، یہ مناسب نہیں۔ کوئ اور شخص ہوتا تو وہ ان کے کہنے پر عمل کرتا اور اسے چھوڑ دیتا، مگر وہ ذہین تھے۔ انہوں نے سوچا کہ بجائے ان سے مشورہ لینے یا ان کی بات ماننے کے کیوں نہ براہ راست اصل سے رجوع کیا جائے۔ ان کے استفسار پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ضرور لکھو۔ اطمینان کے لیے وہ پوچھتے ہیں کہ کیا اس وقت بھی جب آپ خفا ہوں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب یہ ہے “اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہاں سے جو چیز نکلتی ہے (اپنے منہ کی طرف اشارہ فرمایا) وہ حق ہی ہوتی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ پورے اطمینان کے ساتھ حدیثوں کو لکھتے رہے۔ بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے مجموعہ احادیث میں کوئ دس ہزار حدیثیں تھیں اور اس کے بعد ان کے بیٹے اور ان کے پوتے اس قلمی نسخے کی مدد سے دوسرے لوگوں کو حدیث کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ عمرو بن شعیب بن عبداللہ بن عمرو بن العاص مشہور محدث گزرے ہیں۔

ایسی اور بھی مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک آزاد شدہ غلام تھے وہ بھی ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہتے ہیں کہ کیا میں آپ کی حدیثوں کو لکھ سکتا ہوں؟ حضور نے انہیں بھی اجازت دے دی۔ انہوں نے بھی مجموعہ تیار کیا ہوگا۔ ان میں سب سے اہم حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ ان کا قصہ یہ ہے کہ ہجرت کے وقت ان کی عمر دس سال کی تھی۔ بہت کم سن بچے تھے لیکن ایک ایسے بچے جس کے والدین نہایت مخلص مسلمان تھے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود فرماتے ہیں کہ جب مدینہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میری والدہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر جاکر حضور کے سامنے پیش کیا اور بہت ہی فخر کے ساتھ کہنے لگیں “یا رسول اللہ! میرا بچہ لکھنا پڑھنا بھی جانتا ہے” ٹھیک اسی طرح جیسے آج ہم آپ کہیں کہ میرا بیٹا ڈاکٹریٹ یعنی پی ایچ ڈی کی ڈگری لے چکا ہے غرض بڑے فخر سے بیان کرتی ہیں اور پھر کہتی ہیں “یا رسول اللہ! میری عزت افزائ کا باعث ہوگا کہ اگر اسے آپ خادم کے طور پر قبول کرلیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میری والدہ کی درخواست کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا چنانچہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان میں آپ کی وفات تک رہا۔ اس دس سال کے عرصہ میں ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری و باطنی زندگی کو دیکھتا۔ مسجد میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے ہیں وہ بھی دیکھتا، مکان کے اندر اپنی ازواج مطہرات سے کس طرح برتاؤ کرتے ہیں، کیا کھاتے ہیں، کس طرح سوتے ہیں، غرض ہر چیز کا میں مشاہدہ کرسکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ سہولت، جو ان کو حاصل تھی بڑے سے بڑے صحابہ مثلاً حضر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی میسر نہیں آسکتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اس قدر قریب سے دیکھیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کے زمانے میں مسلمانوں کی جماعت کی تعداد بڑھی اور انہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات معلوم کرنے کا شوق پیدا ہوا تو میرے پاس بہت سے شاگرد آیا کرتے تھے۔ اس بارے میں ان کی روایت کے دو الفاظ ہیں “اذا کثروا” (جب ان کی تعداد زیادہ ہوتی) اور “اذا اصروا” (اور جب وہ زیادہ اصرار کرتے) بہر حال جو بھی صحیح ہو، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایسے موقع پر میں ایک صندوق میں سے ایک پرانا رجسٹر یا پرانی کتاب نکالتا اور اپنے شاگردوں کو بتاتا اور کہتا کہ یہ وہ چیز ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نوٹ کی ہے اور اسے رسول اللہ کے حضور میں وقتاً فوقتاً پیش بھی کیا ہے۔ میری تحریر میں اگر کوئ کمی یا غلطی ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اصلاح فرمادیتے۔ یہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مجموعہ ہے جو یقیناً کئ ہزار حدیثوں پر مشتمل ہوگا۔ یہ ایک ایسی حدیث کی کتاب کہی جاسکتی ہے جو صحیح ترین حدیث کی کتاب ہے، کیونکہ لکھنے کے بعد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نظر ثانی فرماتے ، یعنی سن کر اس کی اصلاح فرماتے ایسی اور مثالیں بھی ملتی ہیں۔ غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں، ان کی اجازت سے، ان کے حضور میں حدیث کی تدوین ہورہی تھی۔ بخاری شریف میں دو ہزار سے زیادہ حدیثیں نہیں ہیں جبکہ بعض روایات کے مطابق حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مجموعہ احادیث میں دس ہزار حدیثیں تھی۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کتنی کثیر حدیثیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تحریری طور پر مدون ہوچکی تھیں۔ بد قسمتی میں وہ سب کی سب کتابی صورت میں ہمارے پاس نہیں پہنچیں بعد کے مؤلفوں نے ان کو تتر بتر کردیا ہے۔ یعنی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیثوں میں سے ایک حدیث کو ایک باب میں دوسری حدیث کو دوسرے باب میں تحریر کیا ہے۔ اس طرح ان کا جو اصل مجموعہ تھا وہ ہم تک نہیں پہنچ سکا۔ بہر حال یہ بالکل واضح ہے کہ عہد نبوی میں حدیثوں کی جمع و تدوین کا آغاز ہوچکا تھا اور اس میں اضافہ بھی ہوتا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہم کو ایسے صحابہ کی تعداد روز افزوں نظر آتی ہے جو اپنی یادداشتوں کو مدون کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں انہیں خیال نہیں آیا، اب انہیں احساس ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باقی نہ رہے میں بھی آج نہیں کل مرنے والا ہوں، اگر میں اپنی یادداشتوں کو محفوظ نہ کرسکا تو یہ سب ضائع ہوجائیں گی۔ کم از کم میں خود اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات تحریر کرلوں۔ چنانچہ ایسی متعدد کتابوں کا ذکر حدیث کی کتابوں میں آتا ہے۔ حضرت سمرہ بن جندب، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے بہت سے صحابہ تھے جنہوں نے کتابیں اور رسالے لکھ ڈالے۔ ان مجموعہ ہائے حدیث میں سے ایک کے متعلق ابن حجر نے لکھا ہے “فیہ علم کثیر” (اس میں بہت علم ہے)۔ ایک اور رسالے کے متعلق لکھا ہے کہ بہت ضخیم تھا۔ یہ جمع حدیث کی ایک صورت ہوئ۔ ایک دوسری صورت تدوین حدیث کی یہ ہے کہ لوگ صحابہ سے لکھ کر پوچھتے تھے۔ مثلاً ایک شخص کو کسی مسئلے کے متعلق کچھ دریافت کرنا ہے تو وہ کسی بزرگ صحابی کو اس خیال سے ممکن ہے وہ جانتے ہوں ایک خط لکھتا ہے۔ وہ صحابی جواب میں حدیث لکھ بھیجتے ہیں کہ ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے یا رسول اللہ کو یہ کرتے دیکھا ہے۔ غرض خط و کتابت کے ذریعے سے حدیث کی تدوین اور حدیث کی تعلیم کا یہ سلسلہ ہمیں نظر آتا ہے اور اس میں ایسی بڑی شخصیتیں بھی ہیں جیسے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ان کے ہاں اکثر خطوط آیا کرتے تھے اور وہ جواب لکھوا کر بھیجتیں۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسرے صحابی ہیں اور ان کے متعلق صحیح بخاری میں یہ مذکور ہے کہ ان کے پاس ایک خط آیا جس کا انہوں نے جواب لکھ بھیجا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی حال تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے خلیفہ وقت ان سے لکھ کر دریافت کرتے کہ اس بارے میں آپ کی کیا معلومات ہیں۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
× How can I help you?