Blog

(تاریخ حدیث( حصہ اول

ڈاکٹر حمید اللہ

 

قرآن مجید میں اور کچھ نہیں تو دس پندرہ جگہ صراحت کے ساتھ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانو مثلاً “ماآتاکم الرسول فخذوہ ومانھکم عنہ فانتھوا” (جو تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے دیں اسے لے لو اور جس سے وہ تمہیں منع کریں اس سے رک جاؤ۔ 7:59) اس سے بھی زیادہ زوردار صراحت کے ساتھ ایک اور آیت ہے: “من یطع الرسول فقد اطاع اللہ” (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے وہ گویا خدا کی اطاعت کرتا ہے۔ 80:4) تو یہ آیت نیز اس طرح کی دوسری آیتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ قرآنی تصور میں حدیث کوئ کم درجے کی چیز نہیں بلکہ ایک لحاظ سے اس کا درجہ قرآن کے برابر ہی ہے۔ فرض کیجئے کہ ایک سفیر کسی بادشاہ کی طرف سے دوسرے بادشاہ کے پاس ایک خط لے کر جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ خط میں زیادہ تفصیلیں نہیں ہوں گی لیکن جس مسئلے کے لیے سفیر بھیجا جاتا ہے اس مسئلے پر جب گفتگو ہوگی تو سفیر کا بیان کیا ہوا ہر ہر لفظ بھیجنے والے بادشاہ ہی کا پیغام سمجھا جائے گا۔ اس مثال کے بیان کرنے سے میرا منشاء یہ ہے کہ حقیقت میں حدیث اور قرآن ایک ہی چیز ہیں دونوں کا درجہ بالکل مساوی ہے۔ ایک مثال سے میرا مفہوم آپ پر زیادہ واضح ہوگا۔ فرض کیجئے کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں اور ہم میں سے کوئ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرنے کا اعلان کرے اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر یہ جاہل شخص اگر کہے کہ یہ تو قرآن ہے خدا کا کلام، میں اسے مانتا ہوں مگر یہ آپ کا کلام ہے اور حدیث ہے یہ میرے لیے واجب التعمیل نہیں ہے، تو اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ فوراً ہی اس شخص کو امت سے خارج قرار دے دیا جائے گا اور غالباً اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں پر موجود ہوں تو اپنی تلوار کھینج کر کہیں گے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیجئے کہ میں اس کافر و مرتد کا سر قلم کردوں۔ غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں یہ کہنا کہ یہ آپ کی نجی بات ہے اور مجھ پر واجب العمل نہیں ہے گویا ایک ایسا جملہ ہے جو اسلام سے منحرف ہونے کا مترادف سمجھا جائے گا۔ اس لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی ہمیں حکم دیں اس کی حیثیت بالکل وہی ہے جو اللہ کے حکم کی ہے۔ فرق دونوں میں جو کچھ ہے وہ اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ قرآن مجید کی تدوین اور قرآن مجید کا تحفظ ایک طرح سے عمل میں آیا ہے اور حدیث کی تدوین اور حدیث کا تحفظ دوسری طرح سے۔ اس لیے تحقیق اور ثبوت کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں تو ثبوت کا کوئ سوال نہیں تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے جو بھی ارشاد ہوا وہ یقینی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا۔ لیکن بعد کے زمانے میں یہ بات نہیں رہتی۔ میں ایک حدیث سن کر آپ سے بیان کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو بالکل سچے ہیں لیکن میں جھوٹا ہوسکتا ہوں۔ مجھ میں انسانی کمزوری کی وجہ سے خامیاں ہوں گی۔ ممکن ہے میرا حافظہ مجھے دھوکہ دے رہا ہو۔ ممکن ہے مجھے غلط فہمی ہوئ ہو۔ ممکن ہے میں نے غلط سنا ہو۔ کسی وجہ سے مثلاً دھیان کم ہوجانے کی وجہ سے یا کوئ چیز حرکت میں تھی اس کے شور کی وجہ سے میں نے کوئ لفظ نہیں سنا تو خلط مبحث پیدا ہوگیا۔ غرض مختلف وجوہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حدیث یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا دوسروں تک ابلاغ اتنا یقینی نہیں رہتا جتنا قرآن کا یقینی ہے۔ قرآن مجید کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگرانی میں مدون کرایا اور اس کے تحفظ کے لیے وہ تدبیریں اختیار کیں جو اس سے پہلے کسی پیغمبر نے نہیں کی تھیں یا کم از کم تاریخ میں ہمیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ مگر حدیث کے متعلق یہ صورت پیش نہیں آئ اور اس کی وجہ ممکن ہے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائل مبارکہ کا یہ پہلو بھی ہو کہ آپ میں تواضع بہت تھی۔ اپنے آپ کو محض انسان سمجھتے تھے۔ (انما انا بشر مثلکم) یہ خیال آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ غالب رہتا تھا، بہ نسبت اس خیال کے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ شاید یہ تصور رہا یا کوئ اور، بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کی تدوین پر وہ توجہ نہ فرمائ جو قرآن مجید کے متعلق رہی۔ اس کی وجہ ایک اور بھی ہے جو بہت اہم ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم میں (وما ینطق عن الھوی۔ ان ھوا الاوحی یوحی 4,3:53) کے ذریعے سے یہ واضح کیا گیا کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے بیان کرتے ہیں وہ اپنی خواہش سے نہیں کرتے بلکہ وہ اللہ کی وحی کردہ چیز ہوتی ہے۔ اس طرح ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی بیان کرتے ہیں وہ خدا کی وحی پر مبنی ہوتا ہے۔ جب وحی آتی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں غلطی نہیں کرتے اسے من و عن پہنچاتے ہیں لیکن اگر وحی نہ آئے تو انتظار کرتے ہیں۔ کیونکہ وحی پیغمبر کے اختیار میں نہیں۔ جب خدا چاہتا ہے وحی کرتا ہے اور جب نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سوائے انتظار کے کوئ چارہ نہیں ہوتا اور وہ اپنی طرف سے کچھ کہہ کر من گھڑت طور سے اپنی بات کو وحی قرار نہیں دے سکتے۔ ہمیں حدیث میں ایسی کافی مثالیں ملتی ہیں جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بعض دنیوی معاملات میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشورہ بھی فرماتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ احکام دیے۔ صحابہ نے کہا کہ کیا یہ وحی پر مشتمل ہیں۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اگو وحی پر مشتمل ہوتے تو میں تم سے مشورہ نہ کرتا۔ ایک دوسری حدیث بہت دلچسپ ہے جو کھجور کے درختوں کے متعلق ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے اور وہاں دیکھا کہ نر درختوں کے پھول مادہ پھول کے اندر ڈالے جاتے ہیں گویا اس عمل کی وجہ سے کھجور پیدا ہوتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت میں جو حیا تھی اس کی بناء پر آپ کو یہ عمل پسند نہیں آیا اور کہا کہ نر اور مادہ کا تعلق پیدا کرنا درختوں میں مناسب نہیں ہے، بہتر ہے کہ تم یہ نہ کرو۔ لوگوں نے جب اس حکم پر عمل کیا تو کھجور کی پیداوار اس سال بہت خراب گئ۔ سب لوگ آئے اورعرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے اس سال بیج ڈالنے (Pollination) کا عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے کھجور کی پیدا وار نہیں ہوئ اس پر (ترمذی شریف وغیرہ کی حدیثوں کے مطابق) آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب یہ تھا “انتم اعلم بامورر ادنیا کم” (تم اپنے دنیاوی یمعاملات کو میرے مقابلے میں بہتر جانتے ہو) اس مثال سے یہ ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئ چیز وحی کے تحت بیان کریں تو اس کی حیثیت قرآن کے مطابق ہوگی۔ لیکن کوئ بات اپنی طرف سے بیان کریں تو وہ ایک ذہین، ایک فہیم انسان کا بیان ہوگا لیکن خدائ وحی نہیں ہوگی، انسانی چیز ہوگی اور انسانی چیز میں خامیاں ہوسکتی ہیں۔ چنانچہ حدیثوں میں اس کا ذکر آتا ہے کہ کبھی کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بجائے چار رکعت کے تین ہی رکعت کے بعد سلام پھیر لیا، یا یہ کہ بجائے دو کے تین رکعتیں پڑھ لیں، سہو ہوگیا تو یہ انسانی بھول چوک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ممکن ہے اور ایسا مصلحت الٰہی کے تحت واقع ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے۔ کوئ رسول اسوہ حسنہ اور کامل نمونہ اس وقت ہوسکتا ہے جب وہ انسانی دائرے میں رہے۔ یعنی وہ ایسا ہی کام کرے جسے اور انسان بھی کرسکتے ہیں۔ اس کے بر خلاف اگر رسول “فوق البشر” بن جائے تو ہمارے لیے اسوہ حسنہ نہیں رہے گا۔ اس لیے ایسی مثالیں پیش آتی ہیں کہ فجر کی نماز کا وقت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہے ہیں، بیدار نہیں ہوتے جب سورج طلوع ہوتا ہے تو سورج کی کرنوں کی گرمی اور جلن سے بیدار ہوتے ہیں یا جیسا کہ میں نے بیان کیا، کبھی نماز پڑھنے میں رکعتوں کی تعداد میں سہو فرماتے ہیں، یا اسی طرح کی چیزیں پیش آتی ہیں جن کا حکمت الٰہی کے تحت منشاء اور غرض و غایت یہ ہوتی ہے کہ ہمیں یقین دلایا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی انسان ہی ہیں۔ وہ جو کام کرتے رہے اس کے متعلق کبھی یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ ہم نہیں کرسکتے بلکہ ہم بھی چاہیں تو کرسکتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں یاد رہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ طرز عمل یہ رہا کہ ایسے کام نہ کریں جو امت کی طاقت سے بالاتر اور ان کی استطاعت سے باہر ہوں۔ مثال کے طور پر “وصال” نامی روزے کا میں آپ سے ذکر کروں گا۔ “وصال” کے معنی یہ ہیں کہ چوبیس گھنٹے کی جگہ اڑتالیس گھنٹے کا روزہ رکھا جائے۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدت سے منع فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ چوبیس گھنٹے کا بھی روزہ نہ رکھو بلکہ سحری کرو، اور اس پر بہت زور دیتے تھے۔ ایک مرتبہ صحابہ نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ تو ہمیں حکم دیتے ہیں یوں کرو مگر خود آپ کا طرز عمل اس کے برخلاف ہے۔ ہم بھی ویسا ہی کرنا چاہتے ہیں، تو حدیث میں ایک دلچسپ ذکر آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اچھا کوشش کرکے دیکھو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوبیس گھنٹے روزہ رکھا، افطار نہیں کیا اسے اور بڑھایا اور اڑتالیس گھنٹے گزرے، اب لوگوں کو شدید پریشانی ہوئ۔ حسن اتفاق سے شوال کا چاند 29 تاریخ کو نظر نہ آتا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم شاید 72 گھنٹے کا روزہ رکھتے پھر ان لوگوں کو پتہ چلتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید کرنے کی جو تم خواہش رکھتے ہو وہ تمہارے لیے مناسب نہیں ہے۔ امت کے لیے مصلحت یہی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کریں، یہ نہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید میں وہ کام کرنا چاہیں جو ان کے بس کی چیز نہیں۔ ممکن ہے کوئ ایک شخص ایسا کرسکے لیکن عوام الناس ضعیف اور کمزور لوگ ہوتے ہیں وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ غرض حدیث کی اہمیت قرآن کی اہمیت سے کسی طرح کم نہیں۔ اگر ان دونوں میں فرق ہے تو اس قدر کہ حدیث کا ثبوت ہمیں اس طرح کا نہیں ملتا جس طرح قرآن کے متعلق ملتا ہے کہ متواتر چودہ سو سال سے اس کے ایک ایک لفظ، ایک ایک نقطے اور ایک ایک شوشے کے متعلق ہمیں کامل یقین ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا جو قرآن تھا وہی اب بھی باقی ہے۔ حدیث کے متعلق ایسا نہیں ہوا۔

اس تمہید کے بعد میں آپ سے یہ عرض کروں گا کہ قرآن کی مماثل چیزیں اور قوموں میں بھی ملتی ہیں، مثلا یہودیوں کے ہاں توریت اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے یا مثلاً اور قوموں کی طرف خدا کی بھیجی ہوئ کتابیں ہیں، تو قرآن کے مماثل الہامی کتابوں کی مثالیں ہمیں ملتی ہیں، لیکن حدیث کی مماثل چیزیں دیگر قوموں میں مجھے نظر نہیں آتیں۔ بدھ مت میں ایسی چیز موجود ہے مگر اس کی اہمیت وہ نہیں ہے جو ہمارے ہاں حدیث کی ہے۔ بدھ مت کی اساسی اور بنیادی کتاب اسی قسم کی ہے جیسے ہمارے ہاں ملفوظات کے نام سے مشہور مجموعے ہیں جن میں کسی ولی، کسی بزرگ یا کسی مرشد کے اقوال کو ان کے مریدوں میں سے کسی نے قلم بند کیا ہے۔ گوتم بدھ کے ملفوظات بھی صرف ایک شخص کے جمع کردہ ہیں لیکن حدیث کے مماثل کوئ ایسی چیز نہیں ملتی کہ بہت سے اہل ایمان اپنے مشاہدات اور اپنے محسوسات کو جمع کرکے بعد والوں تک پہنچانے کی کوشش کریں، جیسا کہ حدیث کے مجموعوں میں کوشش کی گئ ہے۔ یہ بات دوسروں کے ہاں مفقود ہے۔ گویا حدیث ایک ایسا علم ہے اور حدیث کے مندرجات ایسی چیزیں ہیں جن کے مماثل کوئ اور چیز دوسرے مذاہب میں ہمیں نظر نہیں آتی ان حالات میں تقابلی مطالعے کا امکان باقی نہیں رہتا لہٰذا براہ راست رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی تاریخ ہی پر اکتفا کرنا پڑے گا۔

حدیث کے سلسلے میں اولاً چند اصطلاحوں کا بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک لفظ حدیث ہے اور ایک لفظ سنت، اب یہ دونوں تقریباً مترادف الفاظ سمجھے جاتے ہیں۔ حدیث سے مراد وہی ہے جو سنت کا مفہوم ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ چیزیں، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کردہ امور جن کا تذکرہ کسی مشاہدہ کرنے والے کی طرف سے ہوکہ میں نے دیکھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا یا یوں کیا اور تیسرے وہ امور جنہیں ہمارے مؤلفین “تقریر” کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی وہ امور جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا اور اس سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی صحابی کو کوئ کام کرتے ہوئے دیکھا اور اسے منع نہ کیا یا خاموش رہے، تو گویا اپنی خاموشی سے آپ نے اس عمل کو برقرار رکھا۔ یعنی آپ کے سکوت سے بھی اسلامی قانون بن جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فریضہ ہے کہ وہ کسی برائ کو دیکھیں تو “نہی عن المنکر” کریں یعنی اپنے صحابی کے کسی ایسے فعل کو جو اسلام کے مطابق نہیں ہے آپ معاف تو کردیں گے کہ اس صحابی نے غفلت سے یا ناواقفیت سے کیا ہے لیکن اسے روکیں گے ضرور کہ آئندہ ایسا نہ کرے۔ مختصر یہ کہ حدیث سے متعلق تین چیزیں پائ جاتی ہیں، ایک رسول اللہ کا قول، دوسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل، تیسرا رسول اللہ کا کسی دوسرے کے قول و فعل کو برقرار رکھنا یعنی اصطلاحی طور پر رسول اللہ کی “تقریر” پہلی دو اصطلاحو یعنی حدیث اور سنت میں اب تو کوئ فرق نہیں لیکن ابتدا میں فرق تھا۔ حدیث کے معنی بولنا یعنی قول اور سنت کے معنی ہیں طرز عمل۔ اب گویا قول اور فعل دونوں ایک ہی طرح کی چیزیں ہوگئ ہیں کیونکہ بارہا صحابہ کی نقل کردہ روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول بھی ہوتا ہے اور رسول اللہ کا عمل بھی مگر اس کے لیے حدیث کو حدیث اور سنت میں تقسیم کرکے ان کو الگ الگ کرکے جمع کرنا ناممکن بات تھی۔ اس لیے کثرت استعمال سے حدیث سے مراد قول بھی ہے اور عمل بھی۔ اسی طرح سنت سے مراد قول بھی ہے اور عمل بھی۔ اب عملاً ان میں کوئ فرق باقی نہیں ہے، جہاں تک میرے علم میں ہے۔

حدیث اور قرآن کے مابین ایک تیسری چیز بھی آتی ہے اس سے بھی واقفیت ہوجانی چاہیے۔ اگر چہ اس میں اور حدیث میں کوئ بڑا فرق نہیں ہے، لیکن ایک حد تک فرق ضرور ہے وہ چیز ہے حدیث قدسی۔ حدیث قدسی کے معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ وہ حدیث جس کے شروع میں یہ الفاظ آتے ہیں “اللہ کہتا ہے کہ ۔۔۔ فلاں فلاں” یوں ہم کہہ سکتے ہیں۔ حدیث ساری ہی اللہ کے الہام پر مبنی ہے کیونکہ یہ (وما ینطق عن الھوی ان ھوالا وحی یوحی 4,3:53) کی آیت کے مطابق ہے۔ لیکن اگر حدیث میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صراحت فرمائیں کہ “اللہ کہتا ہے کہ فلاں چیز تو اس کو ہمارے مؤلف ایک مستقل درجے میں رکھتے ہیں اور اسے “حدیث قدسی” کا نام دیتے ہیں البتہ اس کی روایت اس کا ایک دور سے دوسرے دور تک منتقل ہونا بالکل اسی طرح ہوا جس طرح عام حدیثوں کا ہے۔ ہم ان میں کوئ فرق نہیں پاتے ہیں۔ ایسی حدیث کی ابتدا عموماً اس طرح ہوتی ہے کہ “اللہ” ضمیر متکلم کے ذریعے سے ایک امر ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ایسا کروں گا تو خدا خود کلام کرتا ہے اور اس کو رسول اللہ ہم تک پہنچاتے ہیں۔ اس موضوع پر قدیم زمانے ہی سے متعدد مؤلفوں نے کتابیں لکھی ہیں جو ہم تک پہنچی ہیں۔ بعض چھپ بھی گئی ہیں اور بعض ممکن ہے ابھی تک قلمی حالت میں موجود ہوں۔ اس موقع پر آپ کی دلچسپی کے لیے ایک واقعہ سناتا ہوں۔ پیرس میں ایک نومسلم لڑکی آج کل اس موضوع پر اپنے ڈاکٹریٹ کا مقالہ تیار کررہی ہے اس لڑکی کا نام عائشہ ہے یہ بہت ذہین لڑکی ہے۔ دوسال ہوئے اس نے عربی شروع کی اور اب اس درجہ کی اسے عربی آگئ ہے کہ ریاض الصالحین نامی سات آٹھ سو صفحوں کی ضخیم کتاب کا ترجمہ عربی سے اس نے فرنچ میں کرڈالا ہے اور اب ایک مقالہ لکھ رہی ہے اس موضوع پر کہ “حدیث قدسی کیا ہے” اور ایسی حدیثوں کے اندر کیا کیا چیزیں ملتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس میں ہر چیز حدیث قدسی کے موضوع کی تشریح کے ساتھ ساتھ آئے گی۔ حدیث قدسی کے دو چار رسالے جو دستیاب ہیں ان میں سے بھی بعض کا وہ ترجمہ کررہی ہے تاکہ مقالہ میں شامل کرسکے۔

حدیث کی دوبڑی قسمیں بیان کی جاسکتی ہیں ایک سرکاری مراسلے اور دوسرے صحابہ کا اپنے طور پر مراسلے یا سرکاری تحریریں۔ ہجرت سے پہلے ہی ہمیں چند چیزوں کا پتہ چلتا ہے مثلاً آپ واقف ہیں کہ تقریباً سنہ 5 نبوت میں ہجرت سے سات آٹھ سال پہلے مکے میں جب مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کیا تو کچھ لوگ رسول اللہ کے حکم اور اجازت سے حبشہ کو ہجرت کرگئے، اس سلسلے میں ایک دستاویز ہمیں ملتی ہے۔ ممکن ہے آپ میں سے بعض اس سے واقف بھی ہوں کہ اس کا ذکر سیرت کی کتابوں میں آتا ہے یہ ایک خط ہے جو رسول اللہ نے اپنے چچا زاد بھائ جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا کہ یہ خط نجاشی کو جو حبشہ کا حکمران تھا پہنچادیں۔ اس کے آخر میں الفاظ یہ ہیں:
“میں اپنے چچا زاد بھائ جعفر کو تیرے پاس بھیج رہا ہوں اس کے ساتھ کچھ اور بھی مسلمان ہیں جب یہ تیرے پاس پہنچیں تو ان کی مہمانداری کرنا۔”
ظاہر ہے کہ خط پر تاریخ نہ ہونے کے باوجود یہ خط ہجرت حبشہ کے زمانے ہی کا ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ہمیں اس زمانے کی ایک اور چیز ملتی ہے جو کافی دلچسپ کہی جاسکتی ہے۔ بعض لوگوں کو اس پر حیرت بھی ہوتی ہے۔ یہ تمیم داری کا واقعہ ہے۔ تمیم داری شام کے رہنے والے ایک عیسائ تھے۔ وہ مکہ آتے ہیں، اسلام قبول کرتے ہیں اور پھر اپنے قصے بھی بیان کرتے ہیں۔ وہ ایک جہاز ران تھے بہت سے بحری سفر کرچکے تھے۔ جن کا تفصیل کے ساتھ “صحیح مسلم” میں ذکر آیا ہے۔ تمیم داری نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا کہ مجھے یقین ہے کہ آپ کی فوج بہت جلد میرے وطن یعنی شام کو فتح کرے گی جب یہ ہو تو مجھے فلاں فلاں گاؤں بطور جاگیر مرحمت فرمائیں۔ تاریخی کتابوں کے مطابق رسول اللہ نے ایک پروانہ لکھوایا اور اس کو دیا۔ اس کے الفظ یہ ہیں کہ اگر مرطوم، خبرون (اور چند گاؤں کے نام ہیں) وغیرہ فتح ہوجائیں تو تمیم داری کو دیے جائیں۔ غرض یہ بھی ہجرت مدینہ سے پہلے کی تحریری چیزوں میں ایک چیز کہی جاتی ہے۔ اسی طرح کچھ اور چیزیں ہمیں ملتی ہیں۔ دوسرا مختصر دور ہجرت کا وقت ہے۔ یعنی مکہ سے مدینہ کے سفر کے دس بارہ دن کا زمانہ۔ اس زمانے میں بھی ہمیں بعض تحریری چیزوں کا پتہ چلتا ہے۔ مثال کے طور پر سراقہ بن مالک کا واقعہ ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کیا۔ چاہا کہ آپ کو گرفتار کرلے اور قریش کے ہاتھ حضور کو بیچ دے۔ کیونکہ قریش نے اعلان کیا تھا کہ جو محمد کو گرفتار کرے گا اسے اتنا انعام دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ اس اثناء میں کئ معجزات بھی پیش آئے۔ کہتے ہیں کہ آخر میں سراقہ نے معافی چاہی۔ رسول اللہ نے اسے معاف کیا تو اس پر اس نے درخواست کی کہ مجھے پروانہ امن دیا جائے۔ ہمارے راوی بیان کرتے ہیں کہ اس ہجرت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوات قلم اور کاغذ بھی موجود تھا اور حضور کے ہمراہیوں میں لکھنا پڑھنا جاننے والا ایک غلام بھی موجود تھا جس کا نام عامر بن فہیرہ تھا۔ چنانچہ اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے املا کروایا، جس میں سراقہ بن مالک کو رسول اللہ کی طرف سے امن اور پناہ دینے کا ذکر تھا۔ بعد میں سراقہ مسلمان ہوگیا اور جس وقت وہ ملسمان ہونے کے لیے آیا اس نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عطا کردہ پروانہ میرے پاس ہے، چنانچہ اس تحریر کی اساس پر صحابہ نے اسے قریب ہونے کا موقعہ دیا، باوجود ہجوم کے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گیا اور گفتگو کی۔ اسے ہجرت کے زمانے کی تحریروں میں شامل کیا جائے گا۔ ایسی چیزیں زیادہ تو نہیں ہیں۔ غالباً ہجرت کے دوران کی یہ واحد مثال ہے۔ مگر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچے تو اب سرکاری تحریروں کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی گئ۔ ان میں کچھ سرکاری کاغذات ہیں اور کچھ تحریریں خالص پرائیویٹ قسم کی ہیں۔ بعض تحریریں ایسی ہیں جن کی کوئ توقع بھی نہیں ہوسکتی کہ ایسی چیزیں بھی اس زمانے میں پائ جاتی ہوں گی۔ مثلاً “صحیح بخاری” میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جتنے لوگ مسلمان ہوئے ہیں ان کے نام لکھو۔ چنانچہ مردم شماری کی گئ۔ صحیح بخاری کے مطابق اس فہرست میں پندرہ سو لکھے گئے۔ مردوں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں سب کی تعدار پندرہ سو کی تعداد ایسی ہے کہ میرے خیال میں ہجرت سے عین بعد کی معلوم ہوتی ہے۔ فرض کیجئے کہ مکہ سے آئے ہوئے مہاجرین دو سو خاندان ہوں گے تو پانچ سو کے لگ بھگ افراد ہونے چاہئیں۔ اسی طرح اس میں مدینہ منورہ کے مسلمان بھی ہوں گے تو اس طرح پندرہ سو مسلانوں کا ہونا ہجرت کے ابتدائ سالوں کا واقعہ معلوم ہوتا ہے، بہت بعد کا نہیں۔ کیونکہ بعد میں مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئ کہ شمار نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً حجۃ الوداع میں ایک لاکھ چالیس ہزار حضرات فریضہ حج ادا کرنے کو آئے تھے تو پندرہ سو اور ایک لاکھ چالیس ہزار میں ظاہر ہے کوئ نسبت نہیں پائ جاتی۔ مردم شماری کے علاوہ ایک اور چیز بھی ملتی ہے جس کا تعلق غالباً سنہ ١ھ سے ہے اس کی بھی ہمیں کوئ توقع نہیں تھی۔ یہ بھی ایک عجیب و غریب چیز ہے۔ پہلے میں بتادوں کہ یہ ایک دستور مملکت ہے۔ اس کی ضرورت کیوں پیش آئ؟ جیسا کہ معلوم ہے کہ ہجرت کے موقع پر قریش کی اذیت کے باعث مکے کے مسلمان اور آخر میں خود رسول اللہ ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے تھے۔ اب اگر قریش چپ رہتے تو شاید مسلمان جلدی ہی اپنی مصیبت، اپنی جائیداد کی تباہی، اپنے وطن سے بے وطنی وغیرہ کو بھی بھول جاتے اور نئے ملک اور نئے وطن میں نئی زندگی کا آغاز کرلیتے لیکن قریش مکہ نے ان کو چین لینے نہ دیا۔ قریشیوں کو یہ دیکھ کر کہ ان کے دشمن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاتھ سے بچ کر چلے گئے ہیں، اتنی جلن ہوئ اور اتنا غصہ آیا کہ مدینہ والوں کو ایک خط لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا دشمن تمہارے ملک میں آیا ہے یا تو اس کو مارڈالوں یا اس کو اپنے ملک سے نکال دو، ورنہ ہم مناسب تدبیریں اختیار کریں گے۔ ظاہر ہے کہ مدینے کے مسلمان ان میں سے کسی بات کو قبول نہیں کرسکتے تھے۔ آخری دھمکی یا الٹی میٹم کہ ہم مناسب تدبیریں اختیار کریں گے، اگر کوئ حکمران جاہل یا غافل ہوتا تو اس کو غیر اہم چیز سمجھ کر نظر انداز کردیتا لیکن جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسوہ حسنہ بننا تھا ان کے لیے ضروری تھا کہ اپنے بعد آنے والے حکمرانوں کو بتائیں کہ ان حالتوں میں کیا کرنا چاہیے، یعنی دشمن خاص کر قومی دشمن سے اپنے اور اپنی قوم کے مفادات کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کرنا چاہئیں۔ چنانچہ آپ نے دو تین احتیاطی تدابیر اختیار فرمائیں پہلی تدبیر یہ تھی کہ جو لوگ ہجرت کرکے بے وطن ہوکر ایک نئے ملک میں آئے تھے اور جن کے پاس، ان کے بدن کے کپڑوں کے سوا، کوئ چیز نہ تھی، ان کی گزر بسر کا انتظام کیا۔ آپ لوگوں کو پاکستان میں مہاجرین کے مسائل کے پیش نظر اچھی طرح واقفیت ہے کہ یہ کتنا دشوار کام ہے۔ برسوں گزر جانے کے بعد بھی مہاجرین کی ساری گتھیاں، ساری دشواریاں حل نہیں ہوپائیں، اور پھر باوجود ان وافر وسائل کے جو موجودہ زمانے میں ہمارے پاس ہیں اور باوجود اس حقیقت کے کہ ہماری حکومت کی آمدنی کروڑوں روپے کی ہے، ہم مہاجرین کے مسائل آسانی سے حل نہیں کرسکے۔ پاکستان ہی میں نہیں، جرمنی وغیرہ جیسے بہت سے ممالک میں یہ واقعات پیش آئے ہیں اور ہر جگہ یہ ایک نہایت ہی دشوار اور پیچیدہ مسئلہ رہا ہے۔ جو لوگ مدینہ سے آئے تھے ان کی تعداد اگرچہ زیادہ نہیں تھی۔ شاید چند سو آدمی ہوں گے لیکن اس زمانے میں وسائل بہت کم تھے۔ ان چند سو آدمیوں کو ایک چھوٹی سی بستی میں مستقل گزر بسر کے وسائل فراہم کردینا آسان کام نہیں تھا۔ تقریباً اتنا ہی مشکل کام تھا جتنا کسی بڑے ملک میں آج کل مثلاً ایک ہزار کی جگہ ایک لاکھ یا دس لاکھ افراد کا آنا۔ تو ایسی ہی دشواری اس وقت پیدا ہوئ ہوگی۔ مگر اس مشکل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سیاسی فراست سے ایک لمحے میں حل کرلیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر مدینہ کے ان لوگوں کو بلایا جو نسبتاً خوشحال تھے اور ساتھ ہی مکی مہاجرین کے ان نمائندوں کو بھی بلایا جو اپنے اپنے خاندان کے سربراہ تھے۔ جب دونوں جمع ہوگئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کی سفارش کرتے ہوئے انصار سے خطاب فرمایا کہ یہ تمہارے بھائ ہیں، تمہارے ہی دین والے ہیں اور اس دین ہی کی خاطر اپنے وطن، اپنے ملک اور اپنی ہر چیز کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں۔ اس لیے تمہارا فریضہ ہے کہ ان کی مدد کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز کی کہ انصار میں سے ہر خاندان مکہ والوں کے ایک خاندان کو اپنے خاندان میں شامل کرلے۔ مواخاۃ یا بھائ چارہ کا مفہوم یہ نہیں کہ یہ کوئ طفیلی Parasite کے طور پر مفت خوری کرنے والے مہمانوں کی طرح رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب بجائے چھوٹے خاندانوں کے بڑا خاندان ہوگا۔ بجائے دو آدمیوں کے چار آدمیوں کا خاندان ہوگا اور دونوں خاندان کام کریں گے۔ جب کام زیادہ کیا جائے گا تو آمدنی زیادہ ہوگی۔ آمدنی زیادہ ہوگی تو دونوں کی گزر بسر کا انتظام با آسانی ہوسکے گا۔ کوئ شخص کسی خاندان پر بار نہیں بنے گا۔ اس لیے سب ہی نے یہ تجویز بخوشی قبول کرلی۔ مواخات کے اس اصول کا یہ نتیجہ نکلا کہ کئ سو خاندان ایک لمحے میں گزر بسر کے انتظامات حاصل کرنے کے قابل ہوگئے اور پھر اس کے بعد کبھی یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوا کہ کون خوش حال ہے کون بے روزگار ہے، کون پناہ دہندہ ہے اور کون باہر سے آیا ہوا مہاجر ہے۔ اس اہم کام سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور امر کی طرف توجہ فرمائ وہ یہ کہ اس زمانے سے پہلے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مدینہ میں کوئ ریاست یا ممکلت نہیں پائ جاتی تھی۔ وہاں آبادی کا ایک گروہ تھا جو قبیلوں میں بٹا ہوا تھا۔ تقریباً بپچیس تیس قبیلے تھے اور ہر قبیلہ دوسرے قبیلیے سے اتنا ہی آزاد اور خود مختار تھا جتنا آج کل کی دنیا کی سلطنتیں ہوتی ہیں اور اس خودمختاری کا نتیجہ بھی وہی تھا جو آزاد مملکتوں میں ہوتا ہے یعنی آپس میں جنگ بھی ہوتی ہے۔ ہمارے مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مدینے کے انصار درحقیقت دوبڑے قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے (بلکہ دو بڑے گروہوں میں، اور ہر گروہ میں کئ قبیلے تھے) یعنی اوس اور خزرج۔ ان دونوں میں ایک سو بیس سال سے خانہ جنگیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ظاہر ہے کہ جب دو قبیلوں میں جنگ ہورہی ہو تو دونوں کی مشترکہ حکومت کا کوئ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مدینہ میں ان عربوں کے علاوہ اور بھی لوگ آباد تھے۔ مثلاً یہودیوں کے قبائل وہاں تھے۔ ان کی کئ ہزار کی آبادی تھی تخمیناً نصف آبادی یہودیوں پر مشتمل تھی اور نصف آبادی عربوں پر۔ یہودیوں کے علاوہ کچھ عیسائ بھی تھے جن کی صحیح تعداد معلوم نہیں۔ ایک روایت میں پندرہ، ایک روایت میں پچاس کا ذکر ملتا ہے اور یہ قبیلہ اوس کے اندر تھے۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
× How can I help you?