“قصور اس طویل فہرست علماء کا ہے جنہوں نے جان بوجھ کر نسل انسان کو دھوکا دیا۔ بنیادی ترجیح سے انحراف کرتے ہوئے انسان کو دلکش مگر بے سود اور مکروہ توجیہات میں الجھادیا۔ فلسفی، دانشور، سیاستدان اور فاتحین ذاتی تفاخرات اور وجاہت طلبی کا شکار ہوگئے۔ کیا یہ ان پیغمبران قدس سے اظہار تنافر تھا۔ کون عقلمند تھا۔ وہ جو نسل انسان کو بنیادی ترجیح کی طرف بلاتے رہے یا وہ گروہ نفاق عقل کہ انسان کو کم ترجیحات کے پیچ و خم کا شکار کرتے رہے۔ مذہب ہو نہ ہو، تھا کہ نہیں تھا۔ سوال تو بنیادی تھا سقراط، افلاطون اور ارسطو نے اسے کیوں نہیں حل کیا۔ یا فٹشے اور نیٹشے نے کیوں نہیں طے کیا اور وٹ گن سٹائن اور رسل کی تحقیق میں کیوں نہیں آیا۔ شاید ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ یہ اذہان اس درجہ کے نہیں تھے کہ زندگی کے فلسفہ کی ترجیحات ترتیب دے سکتے۔ یہ وہ کم درجہ عقل تھی جو حقیقت اور معاشرت کے دائرہ کار سے آگے نہیں بڑھی۔ جنہوں نے اپنی سوچوں کو تفاخر اور وجاہت کے ذریعہ سمجھا۔ یہ اپنے ہی حسن عقل پجاری تھے۔
اس کاسمولوجسٹ کو دیکھیے جو ابتدائے کائنات پر غور کر رہا ہے اور بنیادی انسانی سوال سے گریز کر رہا ہے۔ آئن سٹائن اضافت کائنات میں الجھا ہوا ہے مگر اپنی موجودگی، زمین اور تخلیق کا بنیادی اصول فراموش کر بیٹھا۔ یقین جانیے میں طویل زمانی اور مکانی خود فراموشی کا کوئی جواز نہیں مرتب کر سکا کا مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انسانی ذہانتوں کے یہ بڑے نام مجھے فریب فکر کے تار عنکبوت میں الجھے نظر آتے ہیں۔ ان سب نے مل کر جملہ نسل انسان کو دھوکا دیا یا شاید یہ فریب خوردہ انسان اس بات پر مصر تھے کہ ہم نسل انسان کی فکری استعداد کو محدود کر کے ذمہ دارانہ عقل و احساس تک نہ پہنچنے دیں، جو ان کی محدود اور منافقانہ عقل کے پول کھول دے، یہ وہ کم فہم اور کم عقل لوگوں کی قطار ہے جو بنیادی خطائے انسان کو شرف عقل و معرفت بنا کر اپنے ہم جنس انسانوں کو یہاں تک لے آئی ہے، کہ انسان ناشناخت ہے، منزل گم کردہ اور عاقبت معدوم۔”
مقدمتہ القرآن – پروفیسر احمد رفیق اختر